Maktaba Wahhabi

758 - 933
کے نام سے ہمارا تعارف چھاپاجو پورے صفحے پر محیط تھا۔ تو اس اعتبار سے ہمارے خاندان کے اندر حفظ کا شوق کامیاب ہوا۔ ہمارے دادا کا ایک اور جذبہ یہ تھا کہ دین کی جو خدمت کی جائے وہ معاوضے کے بغیر ہو،کیونکہ عوام جس شخص کو محتاج سمجھتے ہیں اس کی بات کا اثر نہیں لیتے۔ اس لیے وہ ہمیشہ تلقین کیا کرتے کہ اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہوں ۔ اگرچہ ابتدا میں بھائیوں کے درمیان محبت پیار ہوتا ہے، اس اعتبار سے ہمارے بزرگ آپس میں اس طرح کا اظہار کرتے کہ جو دین کا کام کرنے والے ہیں وہ دین کا کام کریں اور دوسرے ان کی مدد کریں اور ان کے ساتھ تعاون کریں ۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا ،لیکن ہمارے دادا مرحوم اس بات کی نصیحت کیا کرتے تھے کہ انسان دوسرے کا دست نگر نہ ہو۔ اگر وہ دین کا کام بھی کرتا ہے تو بھی موقع ملے تو اسے اپنی معیشت کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے دادا کی اولاد میں ہمارے والد حافظ محمد حسین رحمہ اللہ خاص طور پر اس بات کے علمبردار بنے کہ وہ خود اپنی معاش کا انتظام کریں گے۔ ہمارے والدمرحوم کا نام مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ (جو ہمارے دادا کی خاص محترم شخصیت تھی اور جن سے ہمارے دادا کو بڑی عقیدت تھی) کے نام پر رکھا گیا تھا، ورنہ عام طور پر ہمارے چچا اورتایا وغیرہ کے ناموں کے اندر ’عبد‘ کا لفظ موجودہے۔ بہرحال مذکورہ سوچ سے ہمارے والد مرحوم نے بڑے کام کیے ۔ صابن سازی کا کام بھی ہوا ، پولٹری فارم کا کام بھی ہوا اور اس طرح کے اور کام بھی ہوتے رہے، لیکن پھر انہوں نے اپنا ایک کام ایسا پکا کر لیا، جس کو وہ زندگی کے آخر دم تک انجام دیتے رہے، وہ ٹیکسٹائل کا کام تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے جو فیکٹری لگائی اس کا نام رحمانیہ ٹیکسٹائل ملز تھااور کہتے ہیں کہ رحمانیہ ٹیکسٹائل ملز میں جب کام کی ابتدا ہوئی تو اس وقت میری پیدائش ہوئی تھی۔ اب یہ ہے کہ’رحمانیہ‘ نام میرے نام کی مناسبت سے رکھا گیا یا رحمانیہ ٹیکسٹائل ملز کی مناسبت سے میرا نام عبدالرحمن رکھا گیا، معلوم نہیں ۔ ویسے تو أحبُّ الأسماء إلی اللّٰہ عبد اللّٰہ وعبدالرحمن، اس مناسبت سے والد صاحب نے بڑے بھائی کا نام عبداللہ رکھا، جبکہ میرا نام عبدالرحمن ہے۔ اس طرح ہمارے کام کی ابتدا ہوگئی اور والد صاحب مرحوم اپنی زندگی کے آخری دموں تک جو کام بطورِ معیشت کرتے رہے، وہ ٹیکسٹائل کا کام ہی تھا۔ بعد ازاں ہماری ٹیکسٹائل کی فیکٹری چونکہ جل گئی تھی، اس اعتبار سے یہ تصور پیدا ہوا کہ ایسا کام کرنا چاہیے جس کو آگ نقصان نہ دے۔ لہٰذا پھر ہم نے لوہے کاکام شروع کیا، جس میں ہمارا مخصوص میدان پائپ تھا اور پھر پائپ کی کئی قسمیں ہیں ۔ اس میں پائپ کی ایک قسم وہ ہے جس میں جوڑ نہیں ہوتا۔ ہم نے اس کے لیے کاروبار سیٹ کیا، لیکن تصور وہی تھا کہ دین کا کام کرنے والے اور کاروبار کرنے والے دونوں اس طرح اکٹھے ہوں کہ عوام کی محتاجی نہ ہو، تاکہ عوام میں کوئی دین کا پیغام پھیلے تو عوام محتاج سمجھ کر دین کے پیغام کو ہلکا نہ سمجھیں ۔ اب والد مرحوم اس بات کا خاص اہتمام کرتے تھے کہ معیشت اور دینی خدمات اکٹھی ہوجائیں ۔ وہ زندگی میں ہمیں بھی یہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ آپ محتاجی سے بچ کر باہم اتفاق کے ساتھ کام کریں تاکہ آپ کا کام عوام میں مؤثر ہو۔ بعد میں ہماری رحمانیہ ٹیکسٹائل مل(جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ آگ لگنے سے تباہ ہوگئی تھی) کو والد صاحب نے اپنے زمانہ میں درسگاہ کی شکل دے دی تھی، لیکن یہ درسگاہ میرے مدینہ منورہ سے آنے کے بعد صحیح طرح
Flag Counter