Maktaba Wahhabi

637 - 933
جامعہ ازہر کی فتویٰ کمیٹی کو چند لوگوں کی طرف سے ایک تجویز پیش کی گئی کہ قرآن مجید کو جدید قواعد اِملائیہ کے مطابق طبع کیا جائے تاکہ اس کو سیکھنے اور اس کی تلاوت کرنے میں آسانی ہو، کیونکہ اکثر مسلمان جدید قواعد املائیہ کے خلاف رسم کی وجہ سے رسم عثمانی کے مطابق مطبوع مصاحف سے تلاوت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ چنانچہ فتویٰ کمیٹی نے جواب دیتے ہوئے اپنے فتویٰ میں فرمایا: فتویٰ : کمیٹی کے نزدیک عصر حاضر میں رائج جدید قواعد اِملائیہ کی بجائے رسم عثمانی اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہجاء پر قرآن مجید کی کتابت کرنا واجب اور ضروری ہے،کیونکہ عہد ِنبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسی رسم پر لکھا گیا تھا۔ عہد ِنبوی گزر جانے کے باوجود قرآن مجید اپنے اسی رسم پرقائم رہا اور اس میں کوئی تغیر و تبدل نہ ہوا۔ امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بھی اسی رسم کے مطابق متعدد مصاحف لکھوائے اور مختلف شہروں کی طرف روانہ کردیئے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے اس کام کو پسند کیا اور کسی نے بھی مخالفت نہ کی۔ الغرض عہد صحابہ رضی اللہ عنہم ، عہد تابعین، عہد تبع تابعین اور عہد اَئمہ مجتہدین رحمہم اللہ میں قرآن مجید اسی رسم پر لکھا جاتا رہا اور ان تمام اسلاف میں سے کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی کسی نے اس رسم میں تبدیلی کو جائز قرار دیا۔یہاں تک کہ بصرہ و کوفہ میں تدوین وتالیف کے میدان میں خوب ترقی ہوئی اور جدید قواعد اِملائیہ ایجاد ہوئے۔مگر قرآن مجید کارسم اس ترقی کے دور میں بھی قائم رہا اور ان قواعد جدیدہ سے متاثر نہ ہوا۔ اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر دورمیں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قرآن مجید پڑھتے ہیں مگر اسے حفظ نہیں کرتے اور وہ اپنے دو رکے معروف قواعد کتابت کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ہوتے۔ مگر ایسے لوگوں کاوجود، ائمہ کرام کوقرآن مجیدکا رسم تبدیل کرنے پر ترغیب نہیں دے سکا اوران کی جہالت کی رعایت کرتے ہوئے کسی بھی اہل علم نے اس رسم کو تبدیل کرنے کے جواز کافتویٰ نہیں دیا۔ اس کے بعد کمیٹی نے اپنے فتوے کی تائید میں جلیل القدر ائمہ کرام، اہل علم اور مشائخ کے اَقوال نقل کئے ہیں جو کتابت قرآن مجید میں رسم عثمانی کی مخالفت کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں ۔ کیا اس کے بعد بھی کسی مومن کے لائق ہے کہ وہ اُمت کی بزرگی منہدم کرنے کی کوشش کرے، جسے اُمت کے بیٹوں نے تعمیرکیا ہے۔بلکہ ہر مؤمن پر لازم ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے اور اس کی مضبوطی کا باعث بنے۔ اگر ہم ان تمام حدود و قیود سے آزاد ہوکر رسم قرآن کو بدل دیتے ہیں تو غلطی کے مرتکب ہوں گے۔ بعض لوگوں کی فطرت ہے کہ وہ ہر امر میں تیسیر و تسہیل چاہتے ہیں ۔ جب ہم جانتے ہیں کہ تلقی کے بغیر قرآن مجید کی قراءت کرنا جائزنہیں ہے اور مدارس میں تلامذہ اپنے اساتذہ سے بذریعہ تلقی ہی قرآن سیکھتے ہیں ’’اور ہم نے توکبھی نہیں دیکھا کہ رسم عثمانی ان تلامذہ کے حفظ قرآن میں کبھی رکاوٹ بنی ہو۔‘‘لہٰذالوگوں کوچاہئے کہ وہ بھی بذریعہ تلقی قرآن مجید سیکھیں اور ساتھ ساتھ اَساتذہ سے رسم کاعلم بھی حاصل کریں ۔ شیخ محمد علی بن خلف الحسینی رحمہ اللہ اپنے ایک مکتوب میں شیخ ازھر کو غیررسم عثمانی پرکتابت مصاحف کی ممانعت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :
Flag Counter