’أوتوا الکتب‘لکھیں گے۔ جس آدمی کو علامت صلہ اور ’علامت زیادۃ‘ کاعلم نہیں ،وہ دوسری صورت والی کتابت کو کبھی درست نہیں پڑھ سکتا۔ [المحکم ص ۲۴ پرالدانی نے ابن مجاہد کا یہ قول نقل کیاہے کہ علم النقط یعنی علم الضبط جانے بغیر کسی مصحف سے قراءت ناممکن سی بات ہے۔ یہی بات آج بھی سو فیصد درست ہے اور اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ حرمین شریفین میں سب لوگوں کو دیارِ عرب ہی کے مطبوعہ مصاحف سے تلاوت پرمجبور کرنا ناظرہ خوانوں پرکتنا بڑا ظلم ہے۔ اہل علم کے لیے تو خیر کوئی دشواری نہیں ہوگی۔وقلیل ما ھم] (۳۹) ہمزۃ القطع کو ہمزۃ الوصل سے ممتاز کرنے کے لیے شروع کے نظام نقط میں اس کے لیے زرد رنگ اور بعض علاقوں میں سرخ رنگ کا گول نقطہ ڈالا جاتاتھا۔ [المحکم: ص۸۷] الخلیل رحمہ اللہ کے طریقے میں اس کے لیے ’ء‘کی علامت تجویزکی گئی تھی اور یہ علامت اب تک مستعمل ہے، البتہ بعض افریقی ممالک میں اس’ع‘ یا ’ ‘کی شکل میں اور چین میں عموماً ’ ‘ یا’ ‘ کی شکل میں لکھا جاتا ہے۔ بعض افریقی ملکوں ،مثلاً نائیجیریا میں یا سوڈان کے قلمی مصاحف میں اس کے لیے زرد گول نقطہ اب تک زیر استعمال ہے۔ ٭ ہمزہ کے طریق ِنطق کے اختلافات اور مختلف قراءات میں اس کے طریق ِادا کے تنوع کی وجہ سے ہمزۃ قطع کی مختلف صورتوں کے لیے کچھ مختلف علامات بھی مقرر کی گئیں اور اس کاموقع ضبط تو کتب علم الضبط کی سب سے طویل بحث ہے۔ ٭ ی کلمہ کی ابتداء میں آنے کی صورت میں ہمزہ کی اس علامت قطع(ء) کا استعمال اہل مشرق کے ہاں متروک ہوگیا ہے۔ اس صورت میں وہ صرف الف پر( اور ابتداء میں ہمزہ ہمیشہ بصورت الف ہی لکھا جاتاہے) متعلقہ حرکت دے دیتے ہیں ، مثلاً’ أَ،إِ،أُ‘ کی بجائے ’ اَ،اِ،اُ ‘ ہی لکھتے ہیں اور ابتداء کی صورت میں وہ ہمزۃ الوصل پربھی اسی طرح حرکات لکھتے ہیں ۔اس فرق کو ذیل کی مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ۱۔ہمزۃ القطع کی صورت میں : عرب ممالک میں أَنذر، أُنذر اور إِنذار لکھیں گے، مگر اہل مشرق اسے اَنذر، اُنذر اور اِنذار لکھیں گے۔ ۲۔ ہمزۃ الوصل کی صورت میں : عرب ممالک میں اللّٰہ ، ادع اور اھدنا لکھا جاتاہے، مگر اہل مشرق اسے اللّٰہ ، اُدع اوراِھدنا لکھتے ہیں ، البتہ سوڈان میں اسے اللّٰہ ، ادع اور اھدنا لکھتے ہیں اور لیبیا میں اسے اللّٰہ ، ادع اور اھدنا لکھتے ہیں ۔ نوٹ کیجئے کہ عرب اور عام افریقی ممالک کی علامۃ الصلۃ(ص) آپ کو الف الوصل کی ملفوظ حرکت کے تعین میں قطعاً کوئی مدد نہیں دیتی، یہ صرف شفوی تعلیم سے معلوم ہوگی۔ ہم نے اوپر الف الوصل کی حرکاتِ ثلاثہ والی مثالیں دی ہیں ۔ لیبیا اور سوڈان کاطریقہ ہمارے برصغیر کے طریقے سے مختلف ہے، مگر دوسرے عرب اور افریقی ممالک کے طریق ضبط کی نسبت زیادہ معقول ہے۔ ٭ ہمزہ ہی کے ضمن میں علماء ضبط نے اس مسئلے پر بھی بحث کی ہے کہ’لا‘ میں کون سا سرا لام اورکون سا الف یا ہمزہ ہے اور ہر ایک نظریہ کے حق میں دلائل دیئے گئے ہیں اور یہ بحث خاصی دلچسپ بھی ہے۔ [الطراز ورق۱۲۰/الف ببعد، المحکم ص۱۹۷ ببعد اور غانم ص۵۸۱]تاہم اب اس بحث کاکوئی فائدہ نہیں ہے ،کیونکہ اس وقت عملاً صورت حال یہ ہے کہ تمام افریقی ممالک ماسوائے مصر تو ’لا‘ میں پہلے سرے کو ہی الف یا ہمزہ اور دوسرے سرے کو لام سمجھتے ہیں ، |