Maktaba Wahhabi

55 - 933
میں نے کہا تجھے کس نے یہ قراءت کرائی ہے؟ اس نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔ میں نے کہا اللہ کی قسم مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اس طرح قراءت کروائی ہے۔ اُبی رضی اللہ عنہ نے کہا میرے دل میں اسلام کے بارے میں اس دن جو شک گزرا اس سے پہلے کبھی نہیں گزرا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ نے مجھے اس اس طرح آیت نہیں پڑھائی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں کہنے لگے وہ شخص دعوی کرتا ہے آپ نے اسے اس اس طرح پڑھایا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سر پر مارا وہ شک مجھ سے دور ہو گیا اس کے بعد مجھے کبھی شک نہیں گزرا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل علیہ السلام اورمیکائیل علیہ السلام آئے تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا قرآن ایک حرف پر پڑھیں میکائیل علیہ السلام نے کہا اس سے زیادہ حروف کامطالبہ کر لو ۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا دو حرفوں پر پڑھ لو۔ میکائیل علیہ السلام نے کہا اس سے زیادہ مطالبہ کرو۔ حتی کہ جبرائیل علیہ السلام سات حروف تک پہنچ گئے آپ نے فرمایا : سب شافی کافی ہیں ۔‘‘ اس حدیث کا دوسر ا شاہد عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أقرأني جبریل علی حرف فراجعتہ فلم أزل أستزیدہ ویزیدني حتی انتہی إلی سبعۃ أحرف [مسند أحمد:۴/۲۰۲(۲۳۷۵) ط مؤسسۃ الرسالۃ :۴/۴۵۰(۲۷۱۷) صحیح البخاری کتاب بدء الخلق(۳۲۱۹) وکتاب فضائل القران(۴۹۹۱) صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافر ین:۲۷۲/۷۱۹] ’’مجھے جبرائیل علیہ السلام نے ایک حرف پر قراءت کرائی میں نے اس سے مراجعت کی او رہمیشہ اس سے زیادہ کا مطالبہ کرتا رہا وہ مجھے زیادہ حروف پر قراءت کراتا رہا حتی کہ سات حرو ف تک پہنچ گیا۔‘‘ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ ، ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ والی حدیث نقل کرنے کے بعد رقمطراز ہیں : ’’ فقد أوضح ہذا الخبر أن اختلاف الأحرف السبعۃ إنما ہو اختلاف ألفاظ کقولک ہلمّ وتعال باتفاق المعاني لاباختلاف معان موجبۃ اختلاف أحکام‘‘ [جامع البیان عن تاویل آ ی القران:۱/۷۶ ط۔دار السلام قاہرہ مصر] ’’اس حدیث کی نص نے واضح کردیاہے کہ سبعہ احرف کا اختلاف لفظی ہے جن کے معانی متفقہ ہیں جیسے آپ کہتے ہیں ہلم،تعال ایسے معانی کا اختلاف مراد نہیں ہے جو احکام کے اختلاف کو واجب کرتے ہیں ۔‘‘ ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سبعہ احرف سے سات عر ب کی لغات مراد ہیں ۔ یہ معنی ومطالب نہیں ہے کہ ایک حرف میں سات لغات ہیں لیکن یہ سات لغات قرآن میں متفرق ہیں بعض لغت قریش پر ، بعض لغت ہوازن پر، بعض ہذیل پر، بعض اہل یمن کی لغت پر ، اسی طرح دیگر لغات عرب ان تمام لغات میں ان کے معانی ایک ہی ہیں ۔اس کا معنی یہ ہے کہ قرآن حکیم اس طرح نازل کیاگیا ہے کہ قاری قرآن کو اجازت ہے کہ وہ ان وجوہات میں سے جس وجہ پر چاہے قراءت کر لے۔‘‘ یہ اُمت محمدیہ پر اللہ عزوجل کی طرف سے توسع اور رحمت ہے ۔ اگر ہر فریق کواس بات کا مکلف بنایا جاتا کہ وہ اپنی لغت تر ک کر دے اور اپنی اس عادت سے عدول اختیار کرلیں جس پر وہ پیدا ہوئے تو یہ حکم ان پر گراں اور بوجھل ہوتا۔ اس بات پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے ملاقات کی توکہا اے جبرائیل علیہ السلام میں ایک ایسی امت کی طرف بھیجا گیاہوں جو اُمی ہے ان میں بوڑھے مرد وزن لڑکے اور بچیاں ہیں ۔اور ایسے آدمی ہیں جنہوں کبھی کتاب نہیں پڑھی تو جبرائیل نے کہا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter