عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے توانہوں نے فرمایا:الحالّ المرتحل، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ الحالّ المرتحل کا کیا معنی ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن کریم کو اوّل سے لے کرآخر تک پڑھتا ہے، جب ختم کرنے لگتا ہے تودوبارہ شروع کردیتاہے۔‘‘ [ سنن القراء : ۲۲۶] شیخ القراء قاری فتح محمد پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات ملانا اس لئے ہے کہ دوسرے قرآن کاشروع ہونا خوب پختہ اور یقینی ہوجائے، کیونکہ فاتحہ پر بس کرلینے سے تویہ وہم بھی ہوسکتا ہے کہ شاید اس کو شکریہ کے طور پر پڑھا ہو اور دوسرا قرآن کریم شروع کردینے کی نیت سے نہ ہو۔ نیز﴿وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ پر بس کرنا اس لئے ہے کہ مومنین کی صفات پر قراءت کے ختم ہوجانے کے سبب حسن ِوقف کی رعایت میسر آجائے۔‘‘ [عنایات رحمانی: ۳/۴۹۶] قاری صاحب موصوف رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں : ’’حج و عمرہ کرنے والے نمازی کا اور روزہ رکھنے والے کابھی یہی حال ہے کہ سب اپنے اعمال کو سلسلہ وار جاری رکھتے ہیں اور طالب علم بھی انہی میں شامل ہے جوایک کتاب ختم کرنے کے بعد دوسری شروع کردیتا ہے۔‘‘ [عنایات رحمانی: ۳/۴۸۳] اس عمل کے مسنون ہونے کے بارے میں دو قسم کے دلائل ملتے ہیں : ۱۔ اَحادیث مرفوعہ جن میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اس کی بابت تعلیم و تلقین روایۃ ً وارد ہوئی ہے۔ ۲۔ وہ مشہور اور زبان زدِ خلائق آثار موقوفہ جو صحابہ و تابعین اور ان کے بعد والے حضرات اَئمہ سے منقول ہوکر آئے ہیں ۔[کشفُ النظر اردو ترجمہ النشر: ۳/۱۰۷۴] چنانچہ امام ابو عمرو الدانی رحمہ اللہ نے اپنی اسناد کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ ’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ﴿قُـــــلْ اَعُـــــــــوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ پڑھتے تھے، تو ﴿الحَمْدُ﴾ سے شروع کرتے تھے، پھر سورۃ البقرہ سے ﴿ وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ تک پڑھتے اور اس کے بعد ختم قرآن کی دعا کرتے، پھراُٹھتے۔‘‘ [سنن القراء: ۲۲۷] اس عمل کو حدیث شریف میں الحالّ المرتحل سے تعبیر کیا گیا ہے، جوبہترین اور افضل اعمال میں سے ہے۔ امام ابو عمرو دانی رحمہ اللہ اپنی سند سے نقل فرماتے ہیں : ’’ زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ بہترین عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: الحالّ المرتحل۔‘‘ [جامع البیان:۷۹۶] امام ابن وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’میں نے ابو حیان مدنی رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ الحالّ المرتحل یہ ہے کہ قرآن کریم کا اختتام ہو اور پھر سورۃ الفاتحہ سے ابتدا کی جائے۔‘‘[ جامع البیان:۱۱] شیخ القراء قاری فتح محمد اعمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اس عمل کے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے حق تعالیٰ کا زیادہ تقرب حاصل ہوتا ہے،کیونکہ جب وہ ختم کرتے ہی دوسرا قرآن شروع کردیتا ہے تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن کی تلاوت سے اُکتایا نہیں اور ایک ہی قرآن |