ابن شنبوذ(۳۲۵ھ) کوسزا ابن شنبوذ کا مسلک یہ تھا کہ شاذ قراءات کا پڑھنا پڑھانا جائز ہے اگر وہ قراءت عربیت کے موافق ہوچاہے رسم عثمانی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اس رائے کی وجہ سے ابن شنبوذ کو گرفتار کیاگیا چنانچہ(ربیع الثانی ۳۲۳ھ)بغدادمیں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں اس وقت کا بادشاہ ابوعلی بن مقلۃ ، امام ابن مجاہد اور علماء، فقہا اور محدثین کی ایک جماعت موجودتھی، ابن شنبوذ نے امام ابن مجاہد سے نہایت تلخ کلامی کی، پھر ابن شنبوذ کو بادشاہ وقت نے دس کوڑوں کی سزاسنائی۔چنانچہ اس نے اپنی غلطی کااقرار کیا اور اپنے مذہب سے رجوع کرلیا۔اس پر ایک دستاویز بھی لکھی گئی۔ [ماخوذ از غایۃ النھایۃ فی طبقات القراء :۲/۵۵] خلاصہ بحث ساری بحث پڑھنے کے بعد یہ موقف سامنے آیا: ۱۔ قراءات وحی ہیں ۔ ۲۔ قراءات سبعہ احرف کے تابع ہیں ۔ ۳۔ رسم عثمانی کے موافق ہیں ۔ ۴۔ قراءات عشرہ سے نماز بالکل درست ہے، اس پر امت کااجماع ہے۔ ۵۔ قراءات عشرہ صحیح الاسناد ہیں اور توقیفی ہیں ۔ ۶۔ قراءات عشرہ کی صحت پر امت کااجماع ہے۔ ۷۔ سلف و خلف کا نماز میں قراءات عشرہ پڑھنا عام معمول تھا۔ ۸۔ امت کے پاس اس وقت جو فقط صحیح قراءات ہیں وہ قراء عشرہ کی مرویات ہیں ۔ ۹۔ شاذ قراءات قرآن نہیں ، ان کی تلاوت حرام ہے۔ ۱۰۔ شاذ قراءات بطور تفسیر اور حدیث پڑھی جاسکتی ہیں ۔ ۱۱۔ شاذ قراءات نماز میں پڑھنا جائز نہیں ۔ ۱۲۔ شاذ قراءات کرنے والے کی نماز باطل ہے۔ ۱۳۔ شاذ قراء تیں پڑھنے والے کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں ، نمازلوٹاناہوگی۔ ۱۴۔ شاذ قراءات کے قرآن نہ ہونے پر اُمت کااجماع ہے۔ ۱۵۔ کسی مسلک کے عالم نے شاذ قراءات پڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ ۱۶۔ قراءات کاسیکھنااور سکھانا تلقی پر موقوف ہے۔ ۱۷۔ شاذ اور صحیح قراءات کے بارے میں اُمت کے اجماعی موقف سے انحراف جائز نہیں ۔ ۱۸۔ شاذ قراءات اگر کسی نے پڑھیں ہیں تواس کا سختی سے انکار کیا گیا ہے جیساکہ ابن مقسم اور ابن شنبوذ کے واقعات میں درج ہے۔ اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ اس مسئلے پر شرح صدر فرمائے۔قرآن اور علوم قرآن کی حفاظت اور خدمت کی توفیق بخشے۔ آمین ٭٭٭ |