امام ابن حزم رحمہ اللہ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے قراءات شاذہ کی تلاوت ناجائز ہونے پر امت کا اجماع ذکر کیا ہے۔ [المحلیٰ لابن حزم:۴/۲۵۵] امام نووی رحمہ اللہ ولاتجوز القراءۃ فی الصلاہ ولا لغیرھا بالقراءات الشاذہ لانھا لیست قرانا، فان القران لایثبت الا بالتواتر، ومن قال غیرہٖ فھو غالط او جاھل،فلو خالف وقرأ بالشاذ أنکر علیہ قراء تھا ما فی الصلوٰۃ وغیرھا، وقد اتفق فقھاء بغداد علی استتابۃ من قرأ بالشواذ ونقل ابن عبد البر اجماع المسلمین علی أنّہ لا تجوز القراءۃ بالشواذ ولا یصلی خلف من یقرأ بھا۔ ’’نماز میں اور غیر نماز میں قراءات شاذہ کی تلاوت اس لیے ممنوع ہے کہ یہ قرآن نہیں ، اور قرآن کا ثبوت صرف تواتر سے ہوتا ہے اگر کسی کا موقف اس کے علاوہ کچھ اور ہے تو وہ خود غلط اور جاہل ہے اگر وہ اس بات کی مخالفت کرے اورشاذ قراءات کی تلاوت کرے ، تو اس کی قراءت کا انکار کیا جائے گا خواہ وہ حالت نماز میں ہو یا غیر نماز میں ۔ فقہاء بغداد ایسے شخص کو توبہ کروانے پر متفق ہیں جو نماز میں شواذ کی تلاوت کرتا ہے۔حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ملت اسلامیہ کا اس پر اجماع نقل کیاہے کہ قراءات شاذہ کی تلاوت جائزنہیں ، اور جو پڑھے گا اس کے پیچھے نماز بھی درست نہ ہوگی۔‘‘ [کتاب المجموع:۳/۳۲۹، البرھان للزرکشی:۱/۳۳۳] امام ابوالعباس مہدوی رحمہ اللہ فھذا الضرب،أی المخالف لخط المصحف،وبما أشبھہ،متروک لاتجوز القراءۃ بہٖ ومن قرأ بشیئٍ منہ غیر معاند ولا مجادل علیہ وجب علی الامام أن یواخذہ بالادب وبالضرب والسجن علی ما یظھر لہ من الاجتہاد ومن قرأ وجادل علیہ ودعا الناس إلیہ وجب علیہ القتل لقول النبی المراء فی القرآن کفر والاجماع الامۃ علی إتباع المصحف المرسوم۔ ’’قراءت کی ہر قسم جو مصحف عثمانی رسم کے خلاف ہویا اس کے مشابہ کوئی اور تبدیلی کی جائے قطعی متروک ہے اس کی تلاوت ناجائز ہے، جو شخص کسی عناد و جدال کے بغیر ایسی قراءات پڑھے، امام پر واجب ہے کہ اپنی صوابدید کے مطابق تادیبی کارروائی قید یا جسمانی سزا کی صورت میں عمل میں لائے۔ اگر کوئی جدال کرے اور لوگوں کو ایسی قراءت کی دعوت بھی دے، اس کا قتل ضروری ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’قرآن میں جھگڑنا کفر ہے۔‘‘ اور دوسرا یہ کہ مرسوم مصاحف کی پیروی پر امت کااجماع ہوچکاہے۔‘‘ [منجد المقرئین، للجزری،ص۲۲۱] ابن مقسم بغدادی رحمہ اللہ (۳۵۴ھ)کا قراءات شاذہ پڑھنے سے رجوع کرنا ابن مقسم بغدادی رحمہ اللہ کو اس بات پر سزا دی گئی تھی کہ وہ ہر اس قراءت کی تلاوت جائز سمجھتا تھا جو عربیت اور رسم مصاحف کے مطابق ہو، اگرچہ سندا صحیح ثابت نہ ہو، اسی وجہ سے بغداد میں قراء و فقہا کاایک اجلاس منعقد ہوا۔جس میں بادشاہ وقت بھی شامل ہوا۔ ابن مقسم کو سب علما کے سامنے پیش کیاگیا۔ اس نے توبہ کی اور اس رائے سے رجوع کرلیا، حتیٰ کہ اس سے ایک اقرار نامہ بھی لکھوایا گیا۔علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کو ’’خطیب بغدادی‘‘ نے(تاریخ بغداد) میں ذکر کیا ہے۔ [النشر فی القراءات العشر:۱/۱۷] |