اوّل: یہ کہ جو قراءت بھی ہو وہ مصحف عثمانی کے رسم الخط سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس رسم الخط میں جس قراءت کی گنجائش نہ ہو وہ کسی حال میں قبول نہیں کی جائے گی، مثلاً مصحف عثمانی میں اگر ایک لفظ بعد لکھاگیا ہے تو اس کی قراءت بٰعِدْاور بَعَّدَ تو قبول کی جاسکتی ہے مگر بَعَّدْتَ قبول نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ مستند سرکاری متن کے خلاف پڑتی ہے۔ دوم:یہ کہ قراءت ایسی ہو جو لغت، محاورے اور قواعد زبان کے خلاف نہ ہو اور عبارت کے سیاق و سباق سے مناسبت رکھتی ہو۔ ان دونوں شرطوں کے ساتھ تیسری اہم ترین شرط یہ ہے کہ ایک قراءت اسی صورت میں قابل قبول ہوگی جب کہ اس کی سند معتبر اور مسلسل واسطوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہو۔ ورنہ محض یہ بات کہ ایک قراءت کے لیے مصحف کے رسم الخط میں گنجائش ہے اور قواعد زبان کے لحاظ سے بھی ایک سیاق و سباق میں کوئی لفظ اس طرح پڑھا جاسکتا ہے ، اس کو قبول کرلینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ہر قراءت کے لیے اس امر کا ثبوت لازما ہوناچاہئے کہ اس لفظ یا اس عبارت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح پڑھا تھایا کسی صحابی کو اس طرح پڑھایا تھا۔ یہی آخری شرط وہ اصل نعمت ہے جس کی بدولت قراء توں کے وہ بے شمار ممکن اختلافات، جن کی گنجائش مصحف عثمانی کے رسم الخط اور زبان و محاورہ میں نکل سکتی تھی، گھٹ کر چند مستند اختلافات تک محدود ہوگئے اور ہم کو یہ سعادت میسر ہوئی کہ قرآن جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا ویسا ہی آج ہم پڑھ سکیں ۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ معتبر قاریوں کے واسطہ سے متواتر اور مشہور سندوں کے ساتھ جو مختلف قراء تیں ہم تک پہنچی ہیں ان کے اختلافات کی نوعیت کیا ہے؟کیا فی الواقع حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی بعض الفاظ کو مختلف طریقوں سے پڑھا اور پڑھایا تھا یا ان میں سے کسی قراءت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط نسبت دے دی گئی ہے؟ اور کیا یہ قراء تیں معنی کے لحاظ سے متضاد ہیں یا ان میں کوئی مطابقت پائی جاتی ہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ فی الواقع حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے بعض الفاظ مختلف طریقوں سے پڑھے اور پڑھائے ہیں اور ان مختلف قراء توں میں درحقیقت تضاد نہیں ہے بلکہ غور کرنے سے ان میں بڑی گہری معنوی مناسبت اور اِفادیت پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ملک یوم الدین کی دو متواتر قراء تیں ہیں ۔ عاصم، کسائی، خلف اور یعقوب رحمہم اللہ نے کثیر التعداد صحابہ کی سند سے اس کو مٰلِکِ یوم الدین روایت کیاہے، اور دوسرے قاریوں نے بہت سے صحابہ سے اسکی قراءت مَلِکِ یوم الدین نقل کی ہے۔ ایک قراءت کی رُو سے ترجمہ ہوگا’’روز جزاء کامالک‘‘اور دوسری قراءت کا ترجمہ ’’روز جزاء کابادشاہ‘‘ غور کیجئے کیا ان دونوں میں تضاد ہے؟ درحقیقت ان دو قراء توں نے مل کر تو معنی کو اور زیادہ وسعت دے دی اور مدعا کو پوری طرح نکھار دیا۔ سند سے قطع نظر ، عقل بھی کہتی ہے کہ جبریل علیہ السلام نے دونوں قراء توں کے ساتھ یہ لفظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوسکھایا ہوگا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس لفظ کو کبھی ایک طرح اورکبھی دوسری طرح پڑھتے ہوں گے۔ ایک اور مثال آیت وضوء کی ہے جس میں ارجلکم کی دو متواتر قراء تیں منقول ہوئی ہیں ۔نافع، عبداللہ بن عامر، حفص، کسائی اور یعقوب رحمہم اللہ کی قراءت اَرْجُلَکُم ْہے جس سے پاؤں دھونے کاحکم ثابت ہوتاہے اور عبداللہ بن کثیر، حمزہ بن حبیب، ابوعمرو بن العلاء اور عاصم رحمہم اللہ کی قراءت اَرْجُلِکُمْ ہے جس سے پاؤں پرمسح کرنے کاحکم نکلتا ہے۔ بظاہر ایک شخص محسوس کرے گا کہ یہ دونوں قراء تیں متضاد ہیں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے معلوم ہوگیاکہ دراصل |