ہے۔ میں آزادی اظہار رائے اور علمی تنقید کا پوری طرح قائل ہوں ۔ تنقید کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، اس کا فائدہ ہی ہوتا ہے۔ تحقیق و تنقید سے کسی شے کا جوہر حقیقی واضح ہوجاتا ہے۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَأمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَائً وأمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الْأرْضِ﴾ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ فاضل علماء میری غلطیوں ، کوتاہیوں سے درگزر کریں گے۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ اس میدان میں ایک اچھوتے موضوع کے بارے میں وہ وسعت سے کام لیں گے۔ ابتکار اسی چیز کا نام ہے کہ ایسی نئی چیز سامنے لانا جو پہلے رائج نہ ہو۔ تمحققین کو علم کی خدمت، حق کی نصرت اور قرآن کریم کے دفاع کے لیے اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ آخر میں یہ عرض کرتا چلوں ، ہمیں کسی پر الزام لگانے اور فتویٰ صادر کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے۔ اگر کسی مخلص محقق کی رائے سے ہمیں اختلاف ہو تو اس کے لیے عذر تلاش کرناچاہئے۔ ایک تحقیق کرنے والا بھی انسان ہی ہے۔ اس سے غلطی اور صواب دونوں پہلوؤں کاامکان ہے۔حدیث نبوی !کے مصداق دونوں حالتوں میں وہ اللہ سے اجر پائے گا۔ اس موقع پر مجھے امام مالک رحمہ اللہ کا قول یاد آرہا ہے: ’’کلّ إنسان یؤخذ منہ ویرد علیہ إلا صاحب ھذا القبر !‘‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے علاوہ ہر انسان کی بات کو لیا بھی جاسکتا ہے اور چھوڑا بھی جاسکتاہے۔‘‘ میرا اِرادہ محض قرآن کریم کے دفاع میں خالص علمی انداز سے علوم قرآنیہ کی خدمت کے کام میں شامل ہونا ہے۔ میں اپنے آپ کو کسی کمی اور کوتاہی سے مبّرا نہیں سمجھتا اور کمال تو صرف قرآن کریم کو حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ میری اس کاوش کو خالص اپنی رضا کے لیے قبول فرما لے، قرآن مجید کی مزید خدمت کی توفیق دے اور آخرت میں ذریعہ نجات بنادے۔ وما توفیقی إلا باللّٰہ علیہ توکلت وإلیہ أنیب۔ نظریہ نحو قرآنی کاآغاز اور اس کا اِرتقاء سب سے پہلے میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اس نظریہ کی طرف دعوت دینے والا میں پہلا شخص نہیں ہوں ۔ صدیوں سے کبار علماء اس کی دعوت دے رہے ہیں ۔ قرآن کریم کی متواتر قراءات کا دفاع کرنے والوں اور قواعد نحویہ کی بنیاد پرقرآن مجید پر اعتراض کرنے والوں کے درمیان یہ کشمکش شروع سے ہی جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل و کرم سے اس نظریہ کی نشاندہی کرنے اور مکمل تصور پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ میں نے چار عناصر، بحث کا میزان، محور، بنیادی ڈھانچے اور اساسی بنیادوں میں اس موضوع کا احاطہ کیاہے۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے آغاز سے لے کر آج تک اور اس درمیانی دور میں کوشش کرنے والے علماء کا تذکرہ کرتے چلیں ۔ میرے علم کے مطابق اس نظریہ کی طرف دعوت دینے والے سب سے پہلے عالم ابوزکریا الفراء(ت۲۰۷ھ) ہیں ۔ ان کے دور میں فتنے اور خواہشات کی پیروی عام ہوگئی تھی، عصبیت شدت اختیارکرگئی تھی۔ قرآن کریم پر اعتراضات وارد ہونے لگے۔ان حالات میں قرآن کریم کادفاع ان پر لازم ہوگیاتھا۔(تفصیل کے لیے دیکھئے شھرستاني کی کتاب، الملل والنحل:۱/۸۱،مطبعہ ازھر اورمؤلف کی کتاب ابوزکریا الفراء رحمہ اللہ ص۹۰ دیکھئے) |