اور صیغہ مجہول کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’وفی توجیھھا ثلثۃ أوجہ أحدھا أن یکون ماضیہ أغللت أی نسبتہ إلی الغلول۔۔۔ والمعنی ما صح لنبی أن ینسبہ أحد إلی الغلول۔وثانیھا أن یکون من أغللتہ إذا وجدتہ غالا۔۔۔والمعنی ما صح لنبی أن یوجد غالا۔وثالثھا أنہ من غَلَّ إلی أن المعنی ما کان لنبی أن یغلہ غیرہ أی یخونہ ویسر ق من غنیمۃ۔‘‘ [روح المعانی: ۴/۱۰۹] ’’معنی یہ ہے کہ کسی نبی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ فوجیوں میں سے کچھ کودے، اورکچھ کو نہ دے،بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ برابر تقسیم کرے اورمجہول والی قراءت میں تین صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ایک یہ کہ اس کی ماضی باب افعال سے ہو جس کامعنی ہے کہ اس کومیں نے خیانت کی طرف منسوب کیااورمطلب یہ ہوگاکہ کسی نبی کے بارے میں ایسی نسبت درست نہیں ۔ دوسرایہ کہ اس کاباب افعال خائن پانے کے معنی میں ہو تومطلب یہ ہوکہ کسی نبی کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ خائن پایاجائے اورتیسرایہ کہ اس کاباب مجرد کاہو ۔تومطلب یہ ہوگاکہ کسی نبی کے ساتھ یہ نہیں ہوسکتاکہ اس کوکوئی دوسرادھوکہ دے جائے،اور اس کے مال غنیمت میں سے کچھ لے جائے۔‘‘ نتیجہ قراء ات اس آیت میں دوقراء تیں ہونے کی وجہ سے غلول کی تین پہلوؤں سے نفی ہورہی ہے : نمبر ۱۔ یہ ممکن نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت میں کوئی خیانت کریں ۔ نمبر۲۔ یہ جائز نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف خیانت کو منسوب کیا جائے۔ نمبر۳۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکا دے سکے اور ان کے ساتھ خیانت کر سکے ۔ گویا کہ اس ایک آیت کے ایک کلمہ میں دوقرا ء تیں ہو نے کی وجہ سے اختصار کے ساتھ غلول،یعنی دھوکہ دینا یا دھوکہ کھانایادھوکہ کی نسبت ہوجانا،اس سلسلہ میں جتنے بھی پہلوممکن ہو سکتے تھے تمام کی نفی ہوگئی ہے۔ نمبر۴۔ فإن اللّٰہ من بعداِکراھھنّ(لھنّ) غفوررحیم ﴿وَلا تُکرِھُوا فَتَیٰتِکُم علَی البِغآءِ اِنْ أرَدنَ تَحصُّنًا لّتبتَغُوا عرضَ الحَیٰوۃِالدّنیا،ومن یّکرھّنّ فاِنّ اللّٰہَ مِن بعدِ اِکراھِھِنّ(لھنّ ) غفورٌ ّرحیمٌ﴾ [النور :۳۳] ’’اوراپنی لڑکیوں کواگروہ پاکدامنی چاہیں تو بدکاری پرمجبور مت کروتاکہ دنیاوی مقصد حاصل کرو،اورجس نے ان کو مجبورکیا تو اللہ ان کی مجبوری کے بعد ان کومعاف کرنے والاہے۔‘‘ آیت کامعنی اس آیت میں ان عورتوں کاحکم بیان کیا جارہا ہے جن کو جبر واکراہ کے ساتھ زنا کا شکار بنا دیا جائے ۔اوراس میں یہ جوشرط ہے:اگروہ پاکدامنی چاہیں ،اس سے مراد یہ ہے کہ اس صورت میں تویہ اور بھی بڑاگناہ اورظلم ہے ،ورنہ اگریہ کام ان کی رضامندی سے بھی کرایاجائے تب بھی گناہ ہے۔ ہاں اگروہ کسی کے مجبورکرنے سے ایساکریں تواللہ تعالیٰ ان کے گناہ کومعاف کرنے والاہے۔اوراگروہ بھی رضامندی سے کریں توسوائے سچی توبہ کے ان کومعافی کی کوئی صورت نہیں ہے ۔ چنانچہ اس سے قبل اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَلَا تُکْرِھُوْا فَتَیٰٰـتِکُمْ عَلَی الْبِغَاءِ ﴾ [النور:۳۳] |