قرآن کریم کو زیادہ حروف میں نازل کرکے میری امت پر آسانی فرمائی جائے۔چنانچہ امام مسلم رحمہ اللہ کتاب الصلوۃ حدیث نمبر ۲۸ ابوداؤد کتاب الصلوۃ حدیث نمبر ۱۴۷۷،۱۴۷۸اورنسائی کتاب الصلوۃ جلد نمبر ۲ ص ۱۵۲،۱۵۴ پر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: أن النبی کان عند إضاء ۃ بنی غفار قال فأتاہ جبریل علیہ السلام فقال إن اللّٰہ یامرک أن تقرا أمتک القرآن علی حرف فقال أسأل اللّٰہ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لاتطیق ذلک ثم أتاہ الثانیہ فقال إن اللّٰہ یأمرک أن تقرأ أمتک القرآن علی حرفین فقال اسأل اللّٰہ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک ثم جاء ہ الثالثۃ فقال إن اللّٰہ یأمرک أن تقرأ أمتک القرآن علی ثلثۃ أحرف فقال اسأل اللّٰہ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لاتطیق ذلک ثم جاء ہ الرابعہ فقال إن اللّٰہ یأمرک أن تقرأ أمتک القرآن علی سبعۃ أحرف فأیما حرف قروؤا علیہ فقد أصابوا ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ایک جگہ بنی غفار کے محلے میں تھے توجبریل علیہ السلام آئے اور کہنے لگے کہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم فرماتے ہیں کہ اپنی امت کوایک حرف پر قرآن پڑھاؤ ،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ سے اس کی عافیت اورمغفرت طلب کرتاہوں ! میری اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی ۔پھر جبریل علیہ السلام اللہ کے پاس گئے اور دوسری مرتبہ آئے اور حکم سنایاکہ دو حرفوں پرامت کو پڑھائیں ، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بات کہی پھرتیسری مرتبہ آئے اور تین حروف پر پڑھنے کوکہا توپھروہی جواب دیا پھرچوتھی مرتبہ سات حروف پرپڑھنے کاحکم سنایا ۔‘‘ اسی طرح کی روایت جس کو ترمذی رحمہ اللہ نے حدیث نمبر ۲۹۴۴ پرنقل کیاہے اورحسن صحیح کہا ہے اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح سنن ترمذی جلد نمبر ۳ ص ۱۵ پرصحیح کہاہے اورمحقق جامع الاصول نے بھی جلد نمبر ۲ ص ۴۸۳پر اس کی سند کوحسن قراردیاہے وہ روایت یہ ہے کہ: ’’لقی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جبریل فقال یا جبریل بعثت إلی أمۃ أمیین فیہم العجوز والشیخ والکبیر والغلام والجاریۃ الرجل الذی لم یقراء کتابا قط فقال یا محمد إن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف‘‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جبریل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جبر یل علیہ السلام !میں ایک ایسی امت کی طرف بھیجا گیاہوں جوان پڑھ ہیں اورپھر ان میں بوڑھے،بچے اورایسے لوگ بھی ہیں کہ انہوں نے کبھی کچھ پڑھا ہی نہیں ۔ توجبریل علیہ السلام نے کہا کہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔‘‘ اوراس کے بعض طرق میں ’’ فمرہ فلیقرأ القرآن علی سبعۃاحرف ’’یعنی ان کو حکم دیجیے کہ قرآن کوسات حروف پرپڑھیں ۔‘‘ چنانچہ جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم کوحفظ کرنے میں تلقی وسماع کوکسوٹی بنایااسی طرح قراءات میں بھی اصل چیز تلقی اورسماع ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کواسی طرح پڑھایا،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی کا حکم دیا گیا تھا اس کے علاوہ وہ حدیث مذکور میں أن تقرأ أمتک کے الفاظ بھی اس پر دلالت کررہے ہیں ۔ بغیر تلقی قرآن کا ثبوت نہیں ہوتا ورنہ تقرأ کے بجائے تأمر بھی کہا جا سکتا تھا۔اور اللہ تعالیٰ نے تلقی کو اس لیے ضروری قرار دیاکہ جب تک تلقی وسماع نہیں ہوگا اس وقت تک قرآن کریم کی قراءات کے حصول کا تحقق نہیں ہوسکتاہے۔ اسی طرح امام مسلم رحمہ اللہ اپنی صحیح میں جلد نمبر ۱ ص ۲۷۳پر ، احمد بن شیبہ رحمہ اللہ اور طبری رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اپنی |