یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قراء توں کو جمع کیا تھا یا قرآن کو جمع کیا تھا یا لکھے ہوئے قرآن کو جمع کیاتھا؟جواب یہ ہے کہ لکھے ہوئے قرآن کو ،جسے رسم الخط کہتے ہیں ، یکجا کیا تھا، ورنہ قرآن کے پڑھنے والے ہزاروں لاکھوں میں تھے، چند سو کے شہید ہوجانے پر کونسی پریشانی لاحق ہو سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لکھا ہوا قرآن ایک جگہ پر جمع کیا تھا۔ شروع شروع میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کام سے بہت گھبرائے کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ میں کیسا کروں ، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بار بار قائل کرنے پر اللہ تعالیٰ نے ان کا ذہن کھول دیا۔ پھر مناسب آدمی کی تلاش شروع ہوئی جو یہ کام کرے، تو نظر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ پر جا ٹھہری۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی اس کام سے بہت گھبرائے کہ یہ کام میں کیسا کروں ، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قرآن کریم کو ایک جگہ جمع نہیں فرمایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا سینہ بھی اس حوالے سے کھول دیا۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے عملاً یہ کام اتنا بوجھ والا محسوس ہوتا تھا کہ اگر مجھے اُحد پہاڑ اٹھا کر رکھ دینے کا حکم دیا جاتا تو وہ اس کام سے زیادہ سہل تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ وہ کس چیز کا بوجھ سمجھتے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ بوجھ کی نوعیت یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ جو کام میں کرنے جارہا ہوں اس پر آئندہ قرآن کریم کی پرکھ کا معیار طے ہوگا۔ بہرحال یہ کا م کرلیا گیا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھ گئے اور پہلے سے موجود لکھے ہوئے قرآن کو متفرق لوگوں سے دودو گواہیوں کے ساتھ اخذ کرکے ایک جگہ جمع کردیا۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول ان میں سے ایک گواہی تو اس بات کی تھی یہ مجھے اللہ کے رسول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید پہلے سے موجود لکھے ہوئے قرآن کو متفرق لوگوں سے دودو گواہیوں کے ساتھ اخذ کرکے ایک جگہ جمع کردیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول ان دو گواہیوں کی نوعیت یہ تھی کہ ایک گواہی اس بات کی تھی یہ آئت مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی ہے اور دوسری گواہی اس بات کہ یہ میں خود آپ کی جناب سے براہ راست لکھی ہے۔ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اس بات کی وضاحت بھی کردی جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زندگی میں مکمل قرآن جو لکھوا دیا تھا اس کی حکمت کیا تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم چونکہ وحی باللفظ ہے، جس کے الفاظ کی بحفاظت امت کو منتقلی کافی مشکل امر تھا، چنانچہ آپ نے اس کو مکمل لکھوا دیا تاکہ کسی وقت الفاظ قرآن کے ضمن میں پیدا ہونے والے اختلاف کو حل کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس لکھے ہوئے قرآن کو معیاربنا کر صحیح وغلط کا تعین کیا جاسکے، جیساکہ اس کی مثال یوں ہے کہ آج کل بھی جب ہم پڑھتے ہوئے بھول جاتے ہیں ، تو قرآن مجید کھول کر درست کا تعین کرلیتے ہیں ۔ الغرض قرآن کو لکھوانے کی دو وجہیں تھیں: ۱۔ قرآن مجید چونکہ وحی باللفظ ہے اور روایت باللفظ میں الفاظ کی تبدیلی کا چونکہ اندیشہ ہوتا ہے اس لیے قرآن کریم کا رسم خود لکھوا دیا، تاکہ قرآن کے الفاظ محفوظ رہ سکیں ۔ ۲۔مابعدادوار میں قرآن یا اس کے لفظوں کے حوالے سے کوئی اختلاف پیداہوجائے تو کوئی ایسا معیار موجود ہو، جو اختلا ف کی صورت میں بطور معیار موجود ہو۔ بہر حال اب بحث کرتے ہیں جمع عثمانی کے بارے میں ۔ سب سے قبل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جو مسئلہ |