یہاں ہمیں نزول ’سبعۃ أحرف‘ کے ضمن میں امام طحاوی رحمہ اللہ کی اس رائے کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ان کا یہ کہنا کہ ’سبعۃ أحرف‘ میں سے حرف قریش کے علاوہ باقی حروف نازل ہی نہیں ہوئے تھے، بلکہ اجازت کے قبیل سے تھے، یہ تعبیر درست نہیں ۔ صحیح بات یہ ہے کہ جب صراحتاً روایات میں موجود ہے کہ قرآن کریم کا نزول ’حروف سبعہ‘ پر ہوا ہے، تو ہم نزول کا کس طرح انکار کرسکتے ہیں ، بلکہ اس طرح تو ایک نیا سوال یہ پیدا ہوگا کہ اگر قرآن کا نزول محض لغت قریش پر ہوا تھا تو عرضہ اخیرہ میں چھ لغات کا منسوخ ہونے کا کیا معنی ہوا۔ نسخ تو منزل من اللہ احکام ہی کی تنسیخ کا نام ہے۔ اس لیے امام طحاوی رحمہ اللہ کے بالمقابل امام ابن جریر رحمہ اللہ سمیت عام اہل علم کی یہ رائے بالکل صحیح ہے کہ قرآن کا نزول سات حروف پر ہوا ہے۔ البتہ اگر امام موصوف کا مقصود یہ ہے کہ ایک حرف قریش اور اس کے ضمن میں قرآن مجید کی تمام الفاظ، آیات اور سورتوں کا تو باقاعدہ نزول ہوا تھا، جبکہ باقی چھ حروف کے نزول کی کیفیت عام نزول سے مختلف تھی، جیساکہ ہم نے تفصیلاً پیش کیا ہے، تو اس بات میں واقعتا کوئی حرج نہیں ۔ باقی رہا یہ سوال کہ کسی مصلحت کے تحت اور فتنہ وفساد کے تدارک کے لیے اسلامی سلطنت کے خلیفہ کو کیا اس بات کا اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ دین میں موجود کسی حکم کو وقتی اور عارضی طور پر موقوف کردے؟ تو اس بارے میں اِن شاء اللہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے ’سبعۃ أحرف‘ میں موقف کے ضمن میں بحث ہوگی۔ سوال نمبر۲۵: عرضہ اَخیرہ میں متعدد قراءات منسوخ ہوئی ہیں یا نہیں ؟ بالفاظ دیگر موجودہ قراءات ’احرفِ سبعہ‘ کاکل ہیں یا بعض؟ وضاحت فرمائیے۔ جواب: پیچھے یہ بات زیر بحث آئی ہے کہ عرضۂ اخیرہ کے وقت متنوع قراءات میں سے بہت کچھ منسوخ ہوا ہے، اسی حوالے سے ہم بالاختصار اپنی بات کو دوبارہ دھرا دیتے ہیں کہ جب حدیث میں ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ کا ذکر آتا ہے تو راجح رائے کے مطابق اس میں ’ احرف سبعہ‘ سے ابتدائی زمانوں میں قرآن مجید کی سات لغات کا اختلاف مراد لیا جاتا تھا۔ قبل ازیں یہ بھی واضح کیا چکا ہے کہ کوئی بھی لغت ہو وہ متعدد لہجات، مترادفات اور اَسالیب بلاغت وغیرہ کو شامل ہوتی ہے۔ تعددِ قراءات کے ضمن میں موجود تقدیم وتاخیر ، حرکات و سکنات، غیب وخطاب اور حذف وزیادت وغیرہ کے قبیل کے اختلافات بات کو سمجھانے کے لیے متعدد اَسالیب بلاغت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ علمائے قراءات کی اصطلاح میں اس قسم کے اختلاف کو فرش الکلمات کے نام سے بیان کیا جاتا ہے۔ لہجوں کے اختلاف کی مثالوں کے ضمن میں امالہ وتقلیل، اظہار واِدغام، مدو قصر اور ہمزہ قطعیہ میں تحقیق وتسہیل، نقل وابدال وغیرہ کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ انہیں قراء حضرات فروش کے بالمقابل اُصولی اختلاف کے عنوان سے بیان کرتے ہیں ۔ باقی رہے مترادفات، تو ان کا دائرہ ابتدائی دور میں بے حساب و بے شمار تھا، جس کا اندازہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ان کے بارے میں پیچھے گذر چکا ہے کہ ان کے نزول کی نوعیت یہ تھی کہ ابتدائی زمانہ نزول ِقرآن کے دور میں نبی کریم کو آپ کی طلب پر اس چیز کی اِجازت دی گئی تھی کہ اگر کسی فرد کو کوئی لفظ زبان سے اَدا کرنا مشکل محسوس ہو تو آپ اس کو اس سے ملتے جلتے قریب المعنی لفظ سے تلفظ کی اجازت دے سکتے ہیں ، چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ |