۷۔ لہجات کا اختلاف اس سے فتح امالہ، تسہیل ، تحقیق، تفخیم ، ترقیق اورقبائل عرب کی لغات مراد ہیں ۔ ساتواں اختلاف جو لہجات کا ہے وہ ماہر استاذ سے سننے کے بعد بھی سمجھ آسکتا ہے، کیونکہ یہ کتابت کے ذریعہ بالکل واضح نہیں ہو سکتا اس کا تعلق تلقی کے ساتھ ہے ۔ قراءات میں سارا انحصار تلقی پر ہوتا ہے۔ نوٹ:جن لوگوں نے لفظ لغات استعمال کیااس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ تمام اختلافی کلمات کو اگر سامنے رکھا جائے تو اس میں مرادفات وغیرہ کا اختلاف تعداد میں کم اور لغات متفرقہ کا اختلاف زیادہ تعداد میں موجود ہے ۔ اس لحاظ سے انہوں نے جمیع اختلاف پر لغات کا لفظ بول دیا۔تلقی پر مفصل بحث عنقریب آئے گی۔ اِن شاء اللہ بزبان رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم سبعۃ احرف کی تشریح نہ ہونے کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر(سبعہ احرف) کے الفاظ مختلف الفاظ کے ساتھ ذکر فرمائے، لیکن سبعۃ أحرف کی وضاحت کسی ایک موقع پر بھی ثابت نہیں نہ کسی صحابی نے اس کے متعلق کوئی سوال کیا۔ اس کی وجہ واضح طور پر یہ نظر آرہی ہے کہ جو بات لوگوں کے ہاں معروف ہوا کرتی ہے اس کی وضاحت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ تحصیل حاصل ہوتا ہے چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد سبعۃ أحرف کے الفاظ میں کلمات میں پایا جانے والا تلفظ و ادا کا اختلاف تھا ۔لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت نہ فرمائی ۔ چونکہ صحابہ کرام بھی اس کامفہوم سمجھتے تھے، لہٰذاانہوں نے سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی اگر یہ معاملہ اس طرح نہیں تھا تو ڈائریکٹ منصب نبوت پر الزام آئے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(بلغ ما أنزل....) کے خلاف کیاہے۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسا کہنا تو درکنار سوچنا بھی خارج ازاسلام ہونے کے برابر ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بات کی وضاحت فرمائی ہے جو بات عند الناس مشہورتھی اس کی وضاحت کوئی ضروری نہیں ہوتی۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ صحابہ کرام کو لفظ’ظلم‘ کا مفہوم سمجھ نہ آیا تو انہوں نے فوراً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر کے وضاحت پوچھ لی، لیکن سبعۃ أحرف کے متعلق کبھی کوئی سوال نہ کیا ۔چونکہ وہ اس کا مفہوم اور اس کی مراد سے بخوبی واقف تھے۔ لغات کے نزول کے ساتھ دیگر اختلافی تلفظ اور مرادفات کا نزول نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسانیٔ اُمت کی دعا لغات کے اختلاف کی وجہ سے فرمائی ، لیکن لغات مختلفہ میں آسانی کی اجازت کے ساتھ ساتھ دیگرکئی چیزیں بھی نازل کر دی گئیں ، مثلاً بعض جگہ مرادفات کا استعمال کیا گیا ۔ اس کی توجیہ یہ ہے: ۱۔ کچھ اختلافات کے نزول کا مقصد کلام الٰہی کوفصاحت وبلاغت کا نمونہ ثابت کرنا ہے۔ ۲۔کچھ اختلافات تفسیری کلام ومسائل کی وضاحت کے لئے استعمال ہوئے ۔جیسے لِأَہَبَ لِیَہَبَ آیت:﴿ لِاَہَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِیَّا ﴾ [مریم:۱۹] ﴿لِیَہَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِیَّا﴾ [مریم:۱۹] لِاَہَبَ والی قراءت میں فرشتہ اپنی طرف نسبت کر کے مریم علیہا السلام کو کہہ رہا ہے کہ ’’میں تجھے پاکباز لڑکا عطا کروں گا۔‘‘ |