۲۔اَقسام احکام کچھ نے سبعہ احرف سے مختلف قسم کے احکام مراد لیے۔اس طرح کے اقوال کی تعداد ۴۰ کے لگ بھگ ہے ۔ رد:یہ قول بھی حدیث سبعۃ کے سراسر خلاف ہے،کیونکہ مخاصمات صحابہ والی حدیث میں قراءت کاپڑھنا نماز کی حالت میں ہے اور نماز میں قرآن کے متن کی تلاوت ہوتی ہے نہ کہ تفسیر بیان کی جاتی ہے اورنہ اس طرح کی کوئی اورتشریح جیسا کہ مسئلہ نمبر۴ کے تحت یہ بات گزری چکی ہے۔ گویا کہ صحابہ کرام کا نزاع کلمات میں تلفظ کے تغیرات پر تھا نہ کہ تفسیر و احکام میں ۔ لہٰذا یہ قول بعید از عقل معلوم ہوتا ہے۔ ۳۔مرویات اَئمہ سبعہ بعض کو غلط فہمی اس حد تک لگ گئی ہے کہ سبعۃ اَحر ف سے مراد سات قراء کی قراءات ہیں یا ان کی مرویات ہیں ۔ رد:یہ قول تو انتہائی مردود ہے وجہ واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’سبعۃ احر ف‘ والی اَحادیث میں سات مشہور قاری مراد نہیں لیے تھے۔یہ قراء تو اس وقت پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے مراد کلمات میں تغیر بالاداء والنطق تھا نہ کہ قراء سبعہ۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’لا نزاع بین العلماء المعتبرین أن الأحرف السبعۃ التی ذکر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن القران أنزل علیہا لیست ہی القراءات القراء السبعۃ المشہورۃ‘‘ ’’اس بات میں اہل علم میں کوئی اختلاف نہیں کہ جن احرف سبعہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے اس سے مراد مشہور قراء سبعہ کی قراءات نہیں ہیں ۔‘‘ [دقائق التفاسیر:۱/۶۸] اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتاہے کہ قراء سبعہ کی قراءات ہی سبعہ احر ف نہیں بلکہ یہ بھی سبعہ احرف ہیں قراءات قرا ء سبعہ ،سبعہ احر ف کے تابع ہیں نہ کہ سبعہ احرف ان کا تابع ہے۔ سبعہ احرف کے متعلق راجح اَقوال اہل علم کے ہاں جمہور علماء کے اَقوال درست اورصحیح سمجھے جاتے ہیں ۔ ٭ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’إن المراد بالسبعۃ،سبعۃ أوجہٍ من المعانی المتفقۃ بالفاظ مختلفۃ‘‘ ’’سبعۃ اَحرف سے مراد(پڑھی جانے والی) سات وجوہ ہیں کہ جوالفاظ(یعنی تلفظ و ادا اورنطق میں ) مختلف ہیں اورمعانی میں اتفاق رکھتی ہیں ۔ [عون المعبود:۱/۵۵۰] لغت میں حرف کا معنی وجہ ہے لہٰذا حرف اوروجہ کہنے میں کوئی تضاد نہیں ۔ ٭ امام خلیل الفراہیدی النحوی رحمہ اللہ : ’’احر ف سبعۃ سے مراد قراءات ہیں ۔‘‘ [ البر ہان فی علوم القرآن:۱/۲۱۴] |