رہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿رَبَّنَا بٰعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا﴾ میں ﴿رَبُّنَا﴾ یعنی باء کے ضمہ کے ساتھ۔ ۳۔ کلمہ کے اعراب میں تبدیلی کی بجائے اس کے حروف میں ایسی تبدیلی ہو جس سے معنی تومتغیر ہوجائے، لیکن صورت خطی برقراررہے۔ مثلاً ﴿وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا﴾ کی بجائے﴿نَنْشِزُھَا﴾ ۴۔ اختلاف کی چوتھی صورت یہ ہے کہ کسی کلمہ میں تغیر اس کی صورت خطی یعنی صورت و ہیئت پر تو اثر انداز ہو، لیکن معنی میں کوئی فرق نہ آئے۔ مثلاً ﴿إنْ کَانَتْ اِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً﴾ کی جگہ ﴿اِلَّا زَقْیَہً﴾ ۵۔ تبدیلی اس طور ہو کہ کلمہ کی شکل و صورت کے ساتھ معنی بھی تبدیل ہوجائیں جیسے ﴿طَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ﴾ کی جگہ ﴿طَلْعٍ مَّنْضُوْدٍ﴾ ۶۔ اختلاف کی نوعیت تقدیم و تاخیر کی قبیل سے ہو مثال کے طور پر﴿وَجَائَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ﴾ کی بجائے ﴿وَجَائَ تْ سَکْرَۃُ الْحَقِّ بِالْمَوْتِ﴾پڑھا جائے۔ ۷۔ کلمات میں زیادتی یا نقص۔مثلاً ﴿وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْھِمْ﴾ کی بجائے ﴿وَمَا عَمِلَتْ اَیْدِیْھِمْ﴾ اور ﴿إنَّ اللّٰہ ھُوَ الْغَنِّیُ الْحَمِیْدُ﴾کی بجائے ﴿ إنَّ اللّٰہ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ﴾ ٭ ابوالفضل الرازی رحمہ اللہ کے مطابق تغیرات کی سات قسمیں یہ ہیں : [ اس قول کو سیوطی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے اوررازی رحمہ اللہ کی کتاب اللوائح کی طرف اس کی نسبت کی ہے، الاتقان(ابوالفضل بن ابراہیم رحمہ اللہ جس کے طابع ہیں ) میں ’اللوائح‘ یعنی ہمزہ کے ساتھ ہے جبکہ اصل میں اس کتاب کا نام ’اللوامح‘ بالمیم ہے۔] ۱۔ واحد،تثنیہ، جمع اورتذکیر ومبالغہ جیسے اسماء کے اوزان کا مختلف ہونا(یعنی واحد کی جگہ تثنیہ یا مذکر کی بجائے مؤنث)۔ ۲۔ افعال(ماضی،مضارع،امر،نہی)کاایک دوسرے سے تبدیل ہوجانا، اس طرح وہ اسماء جن کی طرف فعل کی نسبت ہوتی ہے۔(مثلاًمذکر، مونث، متکلم، مخاطب اور فاعل و مفعول)کا مختلف ہونا۔ ۳۔ اعراب کی مختلف وجوہ کے ذریعے وجود میں آنے والی تبدیلی۔ ۴۔ کمی اور زیادتی کی قسم سے وجود میں آنے والی تبدیلی۔ ۵۔ تقدیم و تاخیر کی قبیل سے ہونے والی تبدیلیاں ۔ ۶۔ ایک کلمہ کے حروف کاقلب ....یا ایک کلمہ کا دوسرے کلمہ سے تبادلہ یا دوسرے حروف سے تبادلہ۔ ۷۔ مختلف لغات کے ضمن میں ہونے والی تبدیلیاں ۔ ٭ ابن جزری رحمہ اللہ کہتے ہیں [النشر:۱/۲۶]کہ میں نے صحیح ، شاذ، منکر اور ضعیف یعنی قراءت کی ہر قسم کا بغور جائزہ لیا ہے۔ جس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ جملہ حروف کا باہمی اختلاف ان سات صورتوں سے خالی نہیں ۔ ۱۔ معنی اور شکل و صورت میں تبدیلی کی بجائے کسی کلمہ کی حرکات میں تغیر ہو، جس طرح کہ ﴿البُخْل﴾ میں چار قسم کی حرکات اور ﴿یَحْسِبُ﴾ میں دو قسم کی حرکات پڑھنا جائز ہے۔ ۲۔ معانی میں تغیر ہو فقط ! جیسے ﴿فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمَاتٍ فَتَابَ اِلَیْہِ﴾ میں ﴿کَلِمَتٍ فَتَابَ اِلَیْہِ﴾اور ﴿وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ﴾کی بجائے ﴿وَادَّکَرَ بَعْدَ اَمَہٍ﴾ |