اُمت مسلمہ نے اس سلسلے میں بالاتفاق آپ کی اِطاعت کی، اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جو کچھ آپ قرآن کے بارے میں کررہے ہیں ، مبنی برحق اور درست ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے خلیفۂ عادل کی اِطاعت کرتے ہوئے اور اپنی اور اپنے بعد آنے والے سارے اہل ملت کی خیر و بھلائی کومدنظر رکھتے ہوئے باقی چھ حروف کو ترک کردیا۔جس کانتیجہ یہ نکلا کہ حروف کی معرفت ختم ہوتی چلی گئی اور اس کے اثرات و نشانات معدوم ہوگئے۔چنانچہ آج ان حروف پر قراءت کی کوئی صورت نہیں ۔‘‘ [تفسیر ابن جریر:۱/۵۷۔۶۴] اس قول میں اَحرف کی تفسیرجن سات لغات کے ساتھ کی گئی ہے ان کی تعیین میں علماء کا اختلاف ہے۔ ۱۔ ابوعبید رحمہ اللہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بسند’’سعید ابن عروبۃ عن قتادۃ عمن سمع ابن عباس‘‘ نقل کرتے ہیں کہ قرآن دوکعب(یعنی کعبِ قریش اور کعب ِ خزاعہ)کی لغتوں میں نازل ہوا۔آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟(کہ بیک وقت دو لغتوں میں قرآن نازل ہوا) تو آپ نے کہا، کیونکہ دونوں کاگھر اور جائے اصل ایک ہی ہے۔ پھر ابوعبید نے ’’بروایت کلبی عن أبی صالح عن ابن عباس‘‘یہ قول نقل کیا ہے کہ قرآن سات لغات پر نازل ہوا جن میں پانچ لغات قبیلہ ہوازن کے عجز کی ہیں ۔ ابوعبید کہ انہیں ’’ہوازن علیا‘‘بھی کہا جاتا ہے جو یہ ہیں : سعد بن بکر، جثم بن بکر، نصر بن معاویہ اور ثقیف۔ ۲۔ بقول ابو حاتم سجستانی رحمہ اللہ [سھل بن محمدبن عثمان بن القاسم ابوحاتم السجستانی [م۲۵۰]بغیۃ الوعاۃ: ۲/۶۰۶] ان سات لغات سے مرادقریش، ہذیل، تمیم، ازد، ربیعہ، ہوازن اور قبیلہ سعد بن بکر کی لغات ہیں ۔ ۳۔ ابوعلی الاہوازی رحمہ اللہ [ الحسن بن علی بن ابراہیم بن یزداد بن ھرمز الاستاذ ابوعلی الاھوازی شیخ القراء بالشام فی عصرہ[م۴۴۶] ۱/۲۲۰] کارجحان اس طرف ہے کہ یہ سب لغات دراصل قریش کے بطون میں ہی ہیں ۔ ۴۔ بعض کے قول کے مطابق یہ سب ’مضر‘ قبیلہ میں سے ہیں ۔ ۵۔ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بعض اصحاب علم سے اس قول کو بھی نقل کیاہے کہ یہ سات لغات: ’’ہذیل، کنانہ، قیس، ضبط، تیم الرباب، اسد بن خزیمہ اور قریش ‘‘ کی ہیں ۔ [الاتقان:۱/۱۳۵] چھٹاقول ابو محمدعبداللہ بن مسلم بن قتیبہ رحمہ اللہ ، ابوالفضل الرازی المری رحمہ اللہ اور محمد بن الجزری المقری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ الأحرف السبعۃسے’کلماتِ قرآنیہ میں اختلاف اور تغایر‘ کی سات قسمیں مراد ہیں ۔ یعنی سبعہ حروف کے ذریعے کلماتِ قرآنی میں ہونے والی تبدیلی ’اختلاف کی سات قسموں ‘ سے خالی نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ ان تغیرات اور اختلافات کی تعداد کے سات ہونے پر تو سب کا اتفاق ہے، لیکن ان کے تعین اور وضاحت کے ضمن میں اختلاف ہے۔ ٭ ابن قتیبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں [تاویل مشکل القرآن:ص۲۸]کہ میں قرآن میں سبعہ حروف کے ذریعے ہونے والی تبدیلیوں پر غوروفکر کرتا رہا جس کے نتیجے میں مجھے اختلاف کی سات صورتیں معلوم ہوئیں : ۱۔ تغیر کی پہلی صورت یہ ہے کہ کسی کلمہ کے اعراب اور حرکت میں ایسی تبدیلی ہو جو نہ ان کے معنی میں تغیر کرے نہ صورت خطی میں ۔ جس طرح کہ فرمانِ الٰہی ﴿ھٰؤُلَاءِ بَنَاتِیْ ھُنَّ اَطْھَرُ﴾ میں ﴿ھُنَّ اَطْھَرَ﴾ یعنی راء پر پیش کے بجائے زبر۔ ۲۔ کسی کلمہ کے اعراب یا حرکت میں ایسی تبدیلی واقع ہو جو اس کے مفہوم و معنی کو تبدیل کردے لیکن صورت خطی برقرار |