شاگرد کو بھی گرے ہوئے الفاظ سے نہیں پکارا۔ آپ کو قہقہہ سے طبعی طور پر نفرت تھی اگر کوئی آپ کی مجلس میں قہقہہ لگاتا بھی تو آپ فوراً منع فرماتے اور کہتے کہ قہقہہ سے دل مردہ ہوجاتا ہے اور ساتھ ہی یہ آیت پڑھتے: ﴿فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّلْیَبْکُوْا کَثِیْرًا﴾ مسجد آسٹریلیا میں تشریف آوری گڑھی شاہو میں مخالفین کا زور ہونے کی وجہ سے کام پھلا پھولا نہیں جس کی وجہ سے حضرت قاری محمد شریف رحمہ اللہ محترم سیٹھی کے مشن کے تحت مسجد آسٹریلیا لاہور میں منتقل ہوگئے۔ یہاں کام بہت جلد چمکا اورچند ہی دنوں میں کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔طلبہ کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے قاری اسحاق آپ کے نائب مدرس مقرر ہوگئے۔ حفظ کرنے والے طلبہ ایسا عمدہ پڑھتے تھے کہ بلا مبالغہ وہ رنگ آج کے دور میں روایت حفص میں فارغ ہونے والوں میں بھی نہیں پایا جاتا۔ آسٹریلیا مسجد کو اپنی ہیئت اور محل وقوع کے اعتبار سے مرکزیت پہلے ہی سے حاصل تھی۔ نمازیوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہوتی تھی۔سونے پر سہاگہ یہ کہ حضرت قاری محمد شریف رحمہ اللہ بحیثیت مدرس تشریف لے آئے۔ نیز تراویح میں قرآن حضرت خود پڑھا کرتے تھے مزید یہ کہ رمضان المبارک کے آخری راتوں میں حضرت کے تلامذہ اور آپ خود شبینہ میں پڑھا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے مسجد آسٹریلیا دور دور تک مشہور ہوگئی اور آپ کی ذاتِ گرامی مرجع خلائق بن گئی۔ تدریسی مصروفیات حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ بہت ہی محنتی اور لائق استاد تھے۔ آپ کا پڑھانے کا انداز عام فہم تھا۔ طلبہ اس سے انداز سے بہت مستفید ہوتے تھے۔ آپ صبح سے لے کر ظہر تک پڑھاتے پھر ظہر کے بعد سے عصر تک اور عصر سے مغرب تک۔ پھر جب تک حضرت نے تالیفی سلسلہ شروع نہیں فرمایا تھا اس وقت تک مغرب و عشاء اور پھر عشاء کے بعد بھی آپ پڑھاتے۔ شاید ہی کوئی اتنی محنت کرتا ہو۔ خدمت قرآن کا اس درجہ غلبہ تھا کہ مدرسہ کے ابتدائی دور میں خود ہی صرف و نحو اور ترجمہ قرآن پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو مختلف لہجوں پر عبور حاصل تھا اور آپ طلباء کو خود مشق کرایا کرتے تھے۔ آپ کے بعض تلامذہ بالکل آپ کے لہجے میں پڑھتے تھے۔ جیسے قاری محمد عمر رحمہ اللہ ، قاری محمد فیاض ، قاری محمد عبد الرب ملتانی، قاری محمد صدیق رحمہ اللہ ۔ طلباء پر شفقت کسی طالب علم کی تکلیف حضرت سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ کوئی شاگرد بیمار ہوجاتا یا کوئی حادثہ پیش آجاتا تو علاج کے معاملے میں حضرت بڑی سے بڑی قربانی سے گریز نہیں فرماتے تھے۔ کوئی طالب علم محسوس نہ کرتا تھا کہ میں اپنے گھر میں ہوں یا گھر سے باہر۔ حضرت اپنی اولاد کی طرح شاگردوں کا خیال رکھتے تھے۔ ایسے موقعہ پر مدرسہ کی طرف سے جو اعانت ہوتی سو ہوتی آپ اپنی جیب سے بھی بہت کچھ تعاون اور مدد فرمایا کرتے تھے۔ حضرت کے کئی شاگرد ایسے بھی تھے کہ جنہیں حصولِ تعلیم کا شوق تو تھا مگر حالات زمانہ مخالف تھے اور مالی وسائل نہ تھے۔ حضرت نے ان کی آخر تعلیم تک خفیہ طور پر مدد فرمائی اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ کسی کے ساتھ اِحسان نہیں جتلایا۔ |