﴿وَکَذَلِکَ أوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ أمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَاالْکِتٰبُ وَلَا الاِیْمَانُ وَلٰکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَشَائُ مِنْ عِبَادِنَا....﴾ [الشوری:۵۲] نماز اور غیر نماز میں رسم مصحف کے موافق قراءات ثابتہ کی تلاوت کرنا جائز ہے،لیکن قراءت شاذہ کے ساتھ نہیں ۔ [مجموع الفتاویٰ لابن تیمیۃ:۱۳/۳۸۹] ٭٭٭ قراءاتِ سبعہ کو جمع کرنے کا حکم سوال: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا قراءاتِ سبعہ کو جمع کرنا سنت ہے یا بدعت ؟اور کیا عہد نبوی میں ان قراءات کو جمع کیا گیا یا نہیں ؟ اور کیا قراءات کو جمع کرکے پڑھنے والے کو ایک روایت پڑھنے والے سے زیادہ ثواب ملتا ہے یا نہیں ؟ جواب: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: نفسِ قراءات کی معرفت اور ان کا حفظ سنت متبعہ ہے، جسے بعد والے پہلے والوں سے اَخذ کرتے چلے آئے ہیں قرآن مجید کی معرفت ،جسے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے اپنے صحابہ کرام7کو پڑھاتے رہے اور جس پر ان کا اجماع ہے ، سنت ہے، اور قراءات کو جاننے اور انہیں حفظ کرنے والے کے لئے صرف ایک روایت جاننے والے کی نسبت زیادہ ثواب ہے۔ نماز یا عام تلاوت میں ان قراءات کو جمع کر کے پڑھنا بدعت مکروہہ ہے، لیکن حفظ اور تعلیم کے لئے ان کو جمع کر کے پڑھنا اجتہاد ہے جس پر ایک گروہ نے عمل کیا ہے۔ [مجموع فتاویٰ لابن تیمیۃ:۱۳/۴۰۴] [نیز یاد رہے کہ آج کل محافل قراءات میں جمع کرکے پڑھی جانے والی قراءات کا مقصد بھی تعلیم ہی ہوتا ہے تاکہ عوام الناس کو قراءات کا تعارف ہو جائے اس اعتبار سے محافل قراءات میں جمع کر کے پڑھناجائز ہے ۔ مترجم] ٭٭٭ سوال: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص قوم کی امامت کرتے وقت اپنی نماز میں عموما امام ابوعمرو بصری کی قراءت پڑھتا ہو، لیکن کبھی کبھار قراءت ابو عمرو بصری کے ساتھ ساتھ روایت ورش یا قراءت نافع ،یعنی مختلف روایات ،میں قرا ء ت کر لیتا ہو تو کیا وہ گنہگار ہو گا؟ یا اس کی نماز میں نقص واقع ہو جائے گا؟ یا وہ اپنی نماز کو دوبارہ پڑھے گا؟ جواب:شیخ الا سلام رحمہ اللہ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن مجید کا بعض حصہ امام ابوعمر و بصری کی قراءت میں اور بعض حصہ امام نافع رحمہ اللہ کی قراءت میں پڑھنا جائز ہے،برابر ہے کہ وہ ایک ہی رکعت میں ہو یا دو رکعات میں ہو، داخل نماز میں ہو یا خارج نماز میں ہو۔ [الفتاویٰ الکبری لابن تیمیۃ:۱/۲۳۰] ٭٭٭ |