Maktaba Wahhabi

105 - 933
میں پھرتے اور ائمہ قراءات سے روایت کرتے رہے، حتیٰ کہ ماور اء النہر تک پہنچ گئے۔ نیز غزنی وغیرہ میں بھی قراءات پڑھیں ۔ پھرکتاب الکامل(۵۰ قراء توں اور ۱۴۵۹ روایات و طرق میں ) تالیف کی۔ خود فرماتے ہیں کہ میں مغرب کے شہروں کے اخیر سے لے کر فرغانہ کے ابواب تک دائیں بائیں پہاڑ، ہموارزمین خشکی، تری غرض کہ ہرجگہ پھرا ہوں اور میں نے ۳۶۵ شیوخ سے ملاقات کی۔ ۱۶۔ اسی زمانہ میں مکہ مکرمہ میں عبدالکریم طبری رحمہ اللہ [۴۷۸ھ]استاذ القراءات تھے۔ انہوں نے کتاب سوق العروس(۱۵۵۰ روایات و طرق میں ) لکھی۔ ۱۷۔ ابوالقاسم عیسیٰ اسکندری رحمہ اللہ [۶۲۹ھ]نے کتاب الجامع الأکبر والبحر الأذخر(۷۰۰۰ روایات و طرق میں ) تالیف کی(النشر في القراءات العشر) کیا کوئی عقل سلیم اس بات کو باور کرسکتی ہے کہ یہ مقدس جماعتیں جن پر دین کا مدار ہے قرآن میں کوئی ایسی چیز پڑھیں یا لکھیں جو قرآن میں نہ ہو، نعوذ باللّٰہ من ھذہ العقیدۃ الباطلۃ غرض کہ اب اُمت کے پاس دس متواتر قراء تیں اور ان کی دو دو روایتیں باقی ہیں ۔ حق تعالیٰ منکرین قراءات کو توبہ کی اور ہمیں حفاظت کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین قرآن کریم میں دو طرح کے الفاظ ہیں : ۱۔ اتفاقی جن کو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک ہی طرح روایت کیاہے۔ ۲۔ اِختلافی جن کو عرب کے لغات کے مختلف فیہ ہونے کی بنا پر حق تعالیٰ نے کئی کئی طرح نازل فرمایا ہے او رپھر انہی الفاظ سے ائمہ قراءات نے قواعد اور شروط کی پابندی کرتے ہوئے مختلف تربیتیں اختیار کرلیں ۔ جن کی بناء پر دورِ اوّل میں بے شمار قراء تیں پڑھی پڑھائی جاتی تھیں جن کی تعداد ابوعبید رحمہ اللہ اور قاضی اسماعیل رحمہ اللہ نے پچیس لکھی ہے۔بعد میں جوں جوں لوگوں میں سستی پیداہوتی گئی۔ شوق اور ہمت گھٹتی چلی گئی اور قوت ضبط وحافظہ میں کمی ہوتی گئی تو ان قراءات کی تعداد بھی کم ہوتے ہوتے دس قراءات اور بیس روایات تک رہ گئی۔ پھر اس علم کی نسبت ان قراءات و روایات کے اَئمہ ہی کی طرف ہونے لگی، کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو اس علم کی خدمت و اِشاعت کے لیے فارغ و مخصوص کرلیاتھا۔ اسی لیے وہ اس میں مشہور ہوگئے او رعوام و خواص سب نے ان پراعتماد کرلیا۔اس وقت قراءت سے یہ دس قراءات دس ائمہ رحمہم اللہ کی طرف منسوب ہیں ۔ پھران میں سے ہر ایک کے دو دو راوی ہیں اور انہی کی دو دو روایتیں مل کر ایک قراءت بنتی ہے۔ ٭٭٭
Flag Counter