کے پاس دینے کو کچھ نہ ہوتا توبیت المال سے قرض لے کر حاجت مند کو دے دیتے۔ چنانچہ رضی اللہ عنہ کے دوسالہ خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ کےنام اس طرح کا چھ ہزار درہم قرضہ ہوگیا تھا۔ جب وفات کا وقت قریب آیا تو اپنے صاحبزادے کو بلا کر فرمایا کہ میرا فلاں باغ بیچ کر آٹھ ہزار درہم کی وہ رقم جو میں نے دوسال کے دوران بیت المال سے بطور وظیفہ لی ہے وہ بھی واپس کردی جائے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی تو فرمایا کہ ’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بعد میں آنے والوں کو تھکا دیا۔‘‘ (واضح رہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وفات سے پیشتر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کردیا تھا۔)(کنزالعمال ج2) 2۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ : آپ رضی اللہ عنہ بچپن میں اونٹ چرایا کرتے تھے۔ مالی حالت کچھ اچھی نہ تھی۔ اسلام لانے کے بعد بھی کافی عرصہ یہی کیفیت رہیں۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو جاگیر بھی عطا فرمائی تھی۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی فتوحات نے مسلمانوں میں کسی حد تک آسودگی پیدا کردی تھی یعنی گزر بسر آرام سے ہوجاتی تھی۔ یہی صورت حال آپ رضی اللہ عنہ کی بھی تھی۔ غزوۂ تبوک کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آپ رضی اللہ عنہ کی مالی حالت نسبتاً بہتر تھی لہذا دل میں خیال آیا کہ آج ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر چندہ دوں گا۔ گھر گئے اور تمام مال اور اثاث البیت کا نصف لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |