مسلمانوں کی اکثریت کا یہی حال ہے۔ الا ماشاء اللہ اب یہاں ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے جو یہ کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ اپنا یہ مسلک دور صدیقی یا دور فاروقی میں کھل کر کیوں پیش نہ کیا۔ دور عثمان میں اس مسلک کی کیا اور کیوں ضرورت پیش آ گئی۔ اور اس شدت سے پیش آئی کہ آپ نے جلا وطن ہونا گوارا کر لیا۔ مگر اپنی بات میں لچک پیدا نہیں کی؟ اس سوال کا مجمل جواب تو پہلے ہی آ چکا ہے۔ اب ذرا تفصیل سے عرض کروں گا۔ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ شریعت کے احکام بعض دفعہ کسی شرط کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں اور بعض دفعہ حالات کے ساتھ مخصوص ہوتے ہیں۔ انفاق فی سبیل اللہ کے احکام کا بھی یہی حال ہے کہ حالات کے مطابق ان میں نرمی اور شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دولت کی فراوانی نہیں تھی اور دولت کی کمی کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی وجہ انفاق فی سبیل اللہ کا رجحان بہت بڑھا ہوا تھا اور باہمی اخوت محبت اور ایثار و مروت کا رجحان فروغ پا رہا تھا۔ آئندہ ذکر ہونے والی احادیث میں اس دور میں مسلمانوں کی معاشی صورت حال پر پوری طرح روشنی ڈالتی ہیں۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں معیشت حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’میں پہلا عرب ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا اور ہم نے اپنے تئیں اس وقت جہاد کرتے پایا جب ہم کو سوا حبلہ اور سمر ( دوکانٹے دار درخت) کے پتوں کے اور کوئی خوراک نہ ملتی۔ ہم |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |