اپنے پروردگار حقیقی سے جا ملے۔ تعامل صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اسوۂ حسنہ، امہات المؤمنین اور خلفائے راشدین کی سیرت کے بعد اب عام صحابہ کرام کی طرف نگاہ دوڑایئے تو معلوم ہوگا کہ ان میں صرف ایک فیصد ایسے حضرات تھے جنہیں دولت مند کہا جا سکتا ہے۔ جبکہ صحابہ کی اکثریت یا تو غریب تھی یا ایسے لوگ تھے جنہوں نے وسائل موجود ہونے کے باوجود فقر، زہد وقناعت اور سادگی کو تعیشانہ زندگی پر ترجیح دی تھی اور اپنے پاس فاضلہ دولت رکھنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ ایسے طبقہ کے سرخیل حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ م 33ھ: اسلام لانے سے پیشتر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیشہ رہزنی تھا۔ آغاز اسلام میں ہی دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر اسلام لائے اور سختیاں برداشت کیں اور ساری زندگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور مشاہدہ کرتے رہے کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال و دولت آتا تو آپ سب کچھ ہی دے دِلا کر فارغ ہو جاتے تھے۔ پھر ایک دفعہ شام سے تھوڑا پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے کہ احد پہاڑ نظر آیا جسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: "اے ابو ذر! اگر اس پہاڑ کے برابر بھی سونا میرے پاس ہو تو مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ تین دن تک میرے پاس اس میں سے ایک اشرفی بھی رہ جائے الا یہ کہ مجھ پر کسی کا قرض ہو۔"(بخاری، کتاب الرقاق، باب ..... مثل احد ذھباً) |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |