قرض کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کی اولاد کا مال کافی ہوجائے تو ان ہی کے مال سے قرضہ ادا کردینا ورنہ پھر بنوعدی بن کعب سے سوال کرنا۔ اگر ان کے مال بھی کافی نہ ہوں تو پھر قریش سے طلب کرنا۔ ان کے علاوہ کسی سے سوال نہ کرنا۔ اس قرض کو میری طرف سے ادا کردنیا۔‘‘ (بخاری۔کتاب المناقب۔ باب قصۃ البیعۃ) 3۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ (م40ھ) آپ رضی اللہ عنہ کے والد ابوطالب غریب بھی تھے اور کثیر الاولاد بھی۔ بچپن ہی سے آپ رضی اللہ عنہ کے وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر صرف8 سال تھی۔ اسی عمر میں آپ رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور تنگی ترشی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ 2ھ میں جب آپ کی شادی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ کے پاس حق مہر کے لیے بھی کچھ رقم موجود نہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کےمطابق آپ حق مہر کی ادائیگی کے لیے اپنی زرہ بیچنے کے لیے نکلے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی توآپ رضی اللہ عنہ نے یہ زرہ چار سو درہم میں خرید لی۔ بعدا ازاں زرہ بھی واپس حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دے دی۔ اسی چار سو درہم کی رقم میں سے کچھ رقم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نئے گھر کے اثاث البیت کے سلسلہ میں خرچ کی، کیونکہ ابھی تک حضرت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ ہی رہتے تھے اور اب علیحدہ گھر کی ضرورت تھی۔ اور باقی رقم حق مہر کے طور پر ادا کی گئی۔ |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |