صرف اس لحاظ سے ہوتے ہیں کہ ان میں صدقہ کی مقدار یا کوئی خاص وقت متعین نہیں ہوتا۔یعنی کوئی شخص جب چاہے اور جتنا چاہے اور جسے چاہے دے سکتا ہے ۔ ایسے صدقات کی ادائیگی کے بھی وہی فوائد ہیں جو نماز کے نوافل کے ہوتے ہیں۔ یعنی اگر فرائض میں کمی رہ گئی ہو تو ایسے صدقات سے پوری کردی جاتی ہے اور دوسرے یہ کہ یہی صدقات تقرب الٰہی کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ لہٰذا ایسے صدقات کی ادائیگی صرف اہل ثروت کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ تنگدست حضرات کو بھی ان کے لیے بہت ترغیب دی گئی ہے ۔لہٰذا تنگدست حضرات کو بھی اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہیے۔ ان کے لیے بھی بخل کے مرض سے نجات اور نفس کا تزکیہ ایسے ہی ضروری ہے جیسے صاحب حیثیت لوگوں کے لیے ضروری ہے ۔ ایسے صدقات کا میدان بھی بہت وسیع ہے۔ غریبوں کو قرض حسنہ دینا قرضہ معاف کردینا یا کسی قرض تلے دبے ہوئے کا قرض اتار کر اسے اس بوجھ سے نجات دلانا، بیواؤں،یتیموں کا خیال رکھنا، اپنی قریبی رشتہ داروں اور ہمسایوں میں سے غریب محتاج لوگوں کی دست گیری کرنا،دینی اداروں سے تعاون اور مساجد کی آبادی وتعمیر میں حصہ لینا، خیراتی اور باہمی تعاون کے اداروں میں شریک ہونا۔ غرضیکہ ان صدقات کا میدان فرضی صدقات کے میدان سے بہت زیادہ وسیع ہے اور ایسے صدقات کی حد جو قرآن نے بتائی ہے وہ یہ ہے ۔ صدقات کا بلند ترین درجہ: مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ڛ قُلِ الْعَفْوَ (البقرہ:219) |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |