’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم! آپ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دیجیے کہ جو کچھ بھی ضرورت سے زائد ہے۔‘‘ اسی چیز کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمائی: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أن رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:«مَنْ كَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا ظَهْرَ لَهُ وَمَنْ كَانَ لَهُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا زَادَ لَهُ قَالَ فَذَكَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَكَرَ حَتَّى رَأَيْنَا أَنَّهُ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ مِنَّا فِي فَضْلٍ» (مسلم، كتاب اللقطة، باب الضيفاة) ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے پاس فالتو سواری ہے وہ اسے لوٹا دے جس کے پاس سوا ری نہیں ہے اور جس کے پاس ضرورت سے زائد زاد راہ ہے وہ اسے لوٹا دے جس کے پاس زاد رہ نہیں ہے۔‘‘ راوی ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی ایک ایک قسم کا ایسے ہی جدا جدا ذکر کیا۔ یہاں تک کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ ہم میں سے کسی کا بھی اپنے زائد مال میں کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ گویا شریعت نے انفاق فی سبیل اللہ کا کم سے کم درجہ بتایا ہے اور وہ ہے فرضی زکوٰۃ کی ادائیگی جو کفر اور اسلام کی حد پر واقع ہے اور زیادہ سے زیادہ درجہ بھی بتا دیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنی ضرورت سے زائد سب کچھ اللہ کی راہ میں دے دے۔ ان دونوں درجوں کے درمیان بہت وسیع میدان ہے جس میں ہر مسلمان اپنی |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |