ترجمہ: ’’ ہمارے ساتھی دنیا سے رخصت ہوگئے اوردنیا ان کا کچھ بگاڑ نہ سکی اور ہم نے دنیا سے مال ودولت پائی کہ ہمیں اسے مٹی میں صرف کرنے ( یعنی مکان بنانے) کے سوا مصر نظر نہیں آتا اور اگر رسول اللہ نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں موت کی دعا کرتا۔‘‘ اس حدیث سے دوباتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ دوری نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مال ودولت کی فراوانی نہ تھی۔ یہ فراوانی یا افراط زر دور عثمانی میں پیدا ہوئی اور دوسرے یہ کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دولت کی قلت کے باوجود انفان فی سبیل اللہ کا رجحان زیادہ تھا لیکن جب دولت زیادہ ہوگئی تو خود غرضی بھی بڑھ گئی اور اس دولت کا بیشتر حصہ اپنی ذاتی ضروریات پر ہی خرچ کرنے کا رجحان بڑھ گیا۔ 3۔ فاضلہ دولت سے اگر زکوۃ ادا نہ کی جائے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والی ہے۔ زکوۃ ادا کرنے پر فاضلہ دولت کا جواز ثابت ہوجاتا ہے مگر یہ خیراسی وقت ہوگی جب کہ اسے کھلے دل سے خرچ کیا جائے۔ 4۔ فاضلہ دولت ساری کی ساری خرچ کر دینا بہترین عمل ہے اور یہی چیز اسوۂ حسنہ سے ثابت ہوتی ہے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی زکوۃ ادا کرناہی نہ پڑی۔ اکثر خلفاء اور اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم نے مال و دولت کے بجائے اختیاری فقر و فاقہ، قناعت اور زہد کو پسند فرمایا۔ 5۔ آج کا مسلمان جواز کی سطح تک نیچے اتر آیا۔ منشائے خداوندی ہرگز یہ نہیں کہ جملہ مسلمان اسی سطح پر قناعت کر جائیں اور اوپر اٹھنے کا نام تک نہ لیں جیساکہ |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |