پورا ہونے لگا۔ اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ معاشرہ کا ہر فرد خود غرضی میں شائیلاک کا نمونہ پیش کرنے لگا۔ قرضِ حسن جو ایک بہت بڑی نیکی تھی ایک بڑاعیب بن گیا۔ بعض تو یہاں تک کہہ گئے Lending Money is the surest way of loosing the friend یعنی قرض دینا' دوست کھونے کا یقینی ذریعہ ہے...... اور اس کی جگہ سودی نظام نے لے لی۔ سود جیسی لعنت کو خود غرض طبیعتوں نے صرف گوارا کرلیا بلکہ تجارت کی طرح اسے عین حق سمجھا جانے لگا۔ اس سودی نظام نے اس طرح پوری اسلامی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ ذہن تک بدل گئے اور خود علماء میں سے ایک ماڈرن طبقہ تجارتی سود کی حلت کا فتویٰ دینے لگا۔ اب صورتِ حال یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ اگر کوئی آسودہ حال شخص دین پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سادگی اور کفایت شعاری کو اپنانا بھی چاہے تو ہر کہ و مہ اس کو کنجوس اور احمق کا طعنہ دے کر معاشرہ کی عام ڈگر پر چلنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ایسے دیندار لوگ جو غریبوں کی مدد کرنا چاہیں وہ بسا اوقات سوچنے پر مجبورہو جاتے ہیں کہ جن حضرات کی یہ مدد کرناچاہتے ہیں وہ اس امداد سے اپنی ضرورت پوری کریں گے یا اس سے اپنے جذبۂ نمود ونمائش کو فروغ دیں گے۔ موجودہ دورمیں ہم نے ان سب خرابیوں کا حل اسلام کی بجائے سوشلزم میں سمجھ لیا ہے۔ بھلا کون ہر وقت آخرت اور اللہ کے ہاں جواب دہی کی فکر لگائے رکھے اور کیوں اپنے آپ کو نفسانی خواہشات مثل زنا' چوری او مکروفریب سے بچائے۔ کیوں موجودہ ثقافت اور تفریحی پروگرام' سینما بینی' کلبوں اور آزادنہ اختلاط سے اپنے آپ کو سمیٹے رکھے۔ پھر یہ بے جان سی نماز اور روزہ کی پابندی |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |