بھی مادی ترقی کی دوڑ میں ہمارا کیا سنوارتی ہے جبکہ رہٹی کپڑے اور مکان کے مسائل حدود و قیود کے بغیر بھی سوشلزم کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں تو پھر اسلام جیسے فرسودہ اور تکلیف دہ نطام کی ضرورت ہی کیا ہے۔ لیکن ہم چونکہ مسلمانوں کی اولاد ہیں اور اتنی جرات ہم میں نہین کے ہم اسلام سے دستبرداری کا اعلان کر سکیں۔ اس کے لیے چاروناچار زندگی کے کسی نہ کسی شعبے میں اسلام کا نام لینے پر مجبور ہیں۔ لہذا ہم نے نعرہ لگایا کہ: اسلام ہمارا مذہب ہے۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ جمہوریت ہماری سیاست ہے دوسرے الفاط میں ہم اسلام کو مکمل ضابطہ حیات رسماً اور تبرکاً سمجھتے ہیں۔ ورنہ عملی طور پر موجودہ دور میں سوشلزم کو اسلامی اقتصادی نظام سے بہتر اور مغرب کے طرزِ جمہوریت کو اسلام کے سیاسی شورائی نظام سے برتر سمجھتے ہیں۔ جب تک ان پیوندکاریوں سے کام نہ لیا جائے۔ اسلام ناقص اور موجود حالات میں کام دینے کےقابل نہیں ہے۔ یہ اسلام بس گھر اور مسجد تک ہی کافی ہے۔ اسلام اور سوشلزم دونوں اصلاحِ حال کے لیے بالکل الگ الگ طرز اختیار کرتے ہیں۔ اسلام جب معاشی تفاوت کو دور کرنے کی راہ ہموار کر رہا ہوتا ہے تو معاشرہ میں احساسِ مروت، ہمدردی، اخوت اور ایثار جیسے اخلاق جمیلہ ابھر آتے ہیں لیکن جہاں سوشلزم کی آمد آمد ہو وہاں خودغرضی، لوٹ کھسوٹ،غضب و غبن،ماردھاڑ،ڈاکہ،چوریاں،جلاو گھراو جیسے اخلاق رذیلہ کو حرکت ملتی ہے۔ پہلے گرانی و قحط کی راہ ہموار کی جاتی ہے پھر خونی انقلاب کے ذریعہ سوشلسٹ نظام مسلط کر دیا جاتا ہے۔ اس فلسفہ حیات مین دینداری نام کی کوئی شے موجود نہیں کیونکہ یہ مادی نظام |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |