چاہتا۔" کیا یہ چند ایک واقعات اسلامی زندگی کا پہلو نہیں؟ یہ پہلو آج کل کہاں نظر آتا ہے، اور اگر نظر نہیں آتا تو کیا واقعی یہ یکسر فراموش کر دیئے جانے کے قابل ہے؟ کیا یہ طرز عمل اسلام نے صرف امراء اور احکام کے لئے مخصوص رکھا ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ "الناس علی دین ملوکھم" کے مصداق عوام اپنےامراء کی دیکھا دیکھی اور امراء، مندرجہ بالا امثلہ کی روشنی میں، سادگی اور کفایت شعاری کو اپنا لیں تو معاشرہ سے بے شمار برائیاں مثلاً چوری، ڈاکہ زنی، لوٹ ماراور بددیانتی وغیرہ ختم ہو سکتی ہیں۔ تاہم انفرادی طور پر بھی کفایت شعاری کے فوائد کچھ کم نہیں۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص اپنی آمدنی کے لحاظ سے یا اس سے بڑھ کر اپنی خوراک یا رہائش وغیرہ پرنمائش کے لئے خرچ کرتا ہے تو کیا اس سے نچلے طبقے کے لوگ "ریس" کا شکار ہو کر یہی کچھ کرنے کی کوشش نہ کریں گے جبکہ انسان کی فطرت ہی یہ ہے کہ "لا یسئم الانسان من دعاء الخیر" (انسان کبھی بھلائی کی دعا مانگتے نہیں تھکتا) لہٰذا ہر شخص سامان تعیش کے حصول کے لئے ہرجائز و ناجائز حربہ وغیرہ ضرور استعمال کرگا جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں ایسی ہی برائیوں کا رواج پاجانا ناگزیر ہے جن کا آج ہم شکار ہیں۔ خلافت راشدہ کے دور میں ہمیں ایک واقعہ ایسے مالدار اور بخیل شخص کے متعلق بھی ملتا ہے جو دوسروں کے تو کیا آتا، اپنی ذات پر کچھ خرچ نہ کرتا تھا۔ اس کی ظاہری ہیئت دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا کہ خیرات کا سب سے مستحق یہی ہے۔ اس کے پھٹے پرانے کپڑے دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تمہیں خدانے دیا |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |