Maktaba Wahhabi

71 - 243
ابن ہشام فرماتے ہیں: اخنس بن شریق نے ابو جہل سے قرآن کے بارے میں اس کی رائے پوچھی تو ابو جہل نے کہا: تم کیا سمجھتے ہو؟ کیا ہمارا اور بنو عبد شمس کا شرف و منزلت میں کوئی اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ وہ لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں تو ہم بھی کھلاتے ہیں۔ وہ بھی لوگوں کو مفت سواریاں تقسیم کرتے ہیں تو ہم بھی کرتے ہیں، وہ لوگوں کو مال دیتے ہیں تو ہم بھی سخاوت میں ان سے کم نہیں۔ اب وہ کہنے لگے ہیں کہ ہم میں نبی ہے جس کے پاس آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے۔ ہمیں یہ شرف کب حاصل ہو گا؟ اللہ کی قسم! ہم اس پر کبھی ایمان نہیں لائیں گے اور کبھی اس کی تصدیق نہیں کریں گے۔ کیا اس سرکشی اور کفر کا سبب عزت و منزلت اور شہرت کی حرص تھی؟ جزیرۂ عرب میں اثر و رسوخ کی خواہش اور لالچ تھا؟ کیا یہی چیزیں ابو جہل کے لیے وحی پر غور و فکر کرنے اور اسے قبول کرنے کی راہ میں حائل ہو گئی تھیں۔ بنو عبد مناف ہمیشہ ہی سے بلند عہدوں پر فائز تھے۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا، غلام آزاد کرنا، مصائب میں لوگوں کا ساتھ دینا وغیرہ۔ ان میں بڑے بڑے بہادر اور شہسوار موجود تھے جو جنگی لشکروں کی قیادت کرتے اور دشمن کو شکست دیتے تھے اور قریش کے لیے مدد اور مالِ غنیمت لاتے تھے۔ جبکہ دوسری جانب بنو امیہ یہی کوشش کرتے رہتیتھے کہ وہ کسی طرح بنو عبد مناف کے ہم پلہ ہو جائیں اور اس طرح کی نیکیاں کریں جس طرح وہ کرتے ہیں اور برائیوں سے ویسے ہی دور رہیں جیسے وہ دور رہتے ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ ان کاموں میں بنو عبد مناف سے سبقت لے جائیں، اس سے بنو امیہ کے دلوں میں ان کے
Flag Counter