Maktaba Wahhabi

62 - 243
میں سارا دن اسی لٹکے ہوئے ہاتھ کے ساتھ لڑتا رہا اور اپنے بازو کو پیچھے گھسیٹتا رہا۔ جب مجھے حد سے زیادہ تکلیف ہوئی تو میں نے اپنا بازو اپنے پیر کے نیچے رکھ کر کھینچا اور اسے علیحدہ کر کے دور پھینک دیا۔[1] کیا آپ نے سنا اے اتباع محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویدارو! اے ابن الجموح کی اولاد! کیا تم نے جہاد فی سبیل اللہ کی یہ شان دیکھی ہے؟ معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنے بازو کو کھینچ کر الگ کر دیا اور اسے دور پھینک دیا،اس لیے کہ وہ فریضۂ جہاد کی ادائیگی میں حائل ہو رہا تھا۔ تصور کرو اپنے ہی جسم کے عضو کو کھینچ کر دے مارا، یقیناً اس طرح کے کام اس طرح کے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ جتنا عمل وہ کر چکے تھے وہ ان کے لیے کافی تھا۔ دن کا اکثر حصہ تو وہ اسی طرح لڑتے رہے تھے، وہ شدید زخمی تھے اور ان کا ایک بازو کٹ گیا تھا۔ لیکن وہ ہار ماننے والے نہیں تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ حق اور باطل میں فرق کر دے اور چار دانگ عالم میں کلمۂ توحید بلند و برتر ہو جائے۔ یہ انھی لوگوں کا کارنامہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدرسے کے تربیت یافتہ تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی روشنی میں انھوں نے فنونِ حرب و ضرب سیکھے تھے۔ جب معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ کی نظر ابوجہل پر پڑی تو وہ شیر کی طرح ابوجہل پر ٹوٹ پڑے، اسے شدید زخمی کرکے زمین پر گرا دیا اور خود بھی شدید زخمی ہو گئے۔ ابوجہل زمین پر پڑا اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا، ابھی اس میں زندگی کی رمق باقی تھی۔ معوذ رضی اللہ عنہ بدر کے اس معرکے میں لڑتے ہوئے شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوگئے۔ معرکۂ حق و باطل اختتام پذیر ہوا۔ یہ وہ عظیم معرکہ تھا جس میں فرشتوں نے بھی شرکت کی تھی، اسی لیے اللہ کے اس لشکر کو کامیابی حاصل ہوئی۔
Flag Counter