Maktaba Wahhabi

237 - 243
اور ان کی جماعت میں تفریق ڈال دی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چھوڑ دیں۔ اس پیشکش پر عمل کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بس میں نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچانے سے رک نہیں سکتے تھے، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی نافرمانی کرنے والے تھے اور ایسا ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے واضح الفاظ میں فرما دیا تھا: ﴿ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ﴾ ’’چنانچہ آپ کھول کر سنا دیں اس چیز کو جس کا آپ کو حکم دیا جاتا ہے اور آپ مشرکوں سے اعراض کریں۔‘‘ [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی پریشانی اور افسوس کی حالت میں وہاں سے اٹھ کر آگئے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کو ہدایت نہیں دی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہاں سے چلے جانے کے بعد ابو جہل کہنے لگا: اے قریش کی جماعت! یقیناً محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہماری بات ماننے سے انکار کر دیا ہے اور وہ جو کچھ کر رہا ہے یعنی ہمارے دین کو عیب لگانا، ہمارے آباؤ اجداد کو برا بھلا کہنا، ہمارے عقلمندوں کو بے وقوف بتلانا اور ہمارے معبودوں کو جھٹلانا، تم ان سب کاموں سے بخوبی واقف ہو۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کل میں ایک بڑا سا پتھر لے کر جسے میں آسانی سے اٹھا سکوں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں بیٹھوں گا۔ وہ نماز کے دوران سجدے میں جائیں گے تو اس پتھر سے ان کا سر کچل دوں گا۔ اس کے بعد چاہے تم میرا دفاع کرنا یا مجھے بنو عبد مناف کے حوالے کر دینا۔ پھر وہ جو چاہیں میرے ساتھ سلوک کریں۔ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ یہ سب کہنے لگے: نہیں، نہیں، اللہ کی قسم! ہم تجھے کسی کے حوالے نہیں کریں
Flag Counter