Maktaba Wahhabi

236 - 243
کے لیے اکٹھے ہوئے کہ آخر اسلام کی دعوت کو کس طرح روکا جائے؟ جو روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ مشرکین قریش کے لیے یہ بات بھی بڑی پریشان کن اور تکلیف دہ تھی کہ عرب کے مختلف وفود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں اور ان کی دعوت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی حقیقت پر مطلع ہوتے ہیں، بعید نہیں کہ وہ بھی اس دعوت کو قبول کر لیں اور مسلمان ہو جائیں تو پھر انھیں ان کے پہلے دین کے ساتھ ملانے والا کوئی نہ مل سکے گا۔ اور انھیں بتوں کے ساتھ کوئی نظر نہ آئے گا۔ یقیناً عرب کے قبائل ان کے بتوں کو چھوڑ دیں گے۔ اور کوئی بھی ان کی ولایت کے قابل نہیں رہے گا۔ ایسے حالات میں ان کا جاہ و جلال اور سرداری کیسے باقی رہ سکے گی؟ لہٰذا یہ ایسا معاملہ تھا کہ اس پر خاموش تماشائی بننا کفار کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اسی وقت انھوں نے عبداللہ بن امیہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا تا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بات چیت کرنے کے لیے ان کے پاس لے آئے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان جیسے امور کے سلسلے میں کوئی حد بندی قائم کر سکیں۔ بہر حال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے آئے تو ان قریشوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس دنیا کی زیب و زینت، محدود جاہ و جلال اور اپنے اموال پیش کیے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ مثلاً: ان کے مطالبات یہ تھے کہ اس نئی دعوت (دعوت حق) جس کے ذریعے آپ نے ان کے کم عقل لوگوں کو بے وقوف بنا دیا ہے، ان کے معبودوں کا مذاق اڑایا ہے
Flag Counter