Maktaba Wahhabi

210 - 243
تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً کوچ نہیں فرمایا کرتے تھے۔ لوگوں نے کوچ کی تیاری شروع کر دی۔ عبداللہ بن ابی کو جب یہ خبر پہنچی کہ زید بن ارقم نے اس کی ساری بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دی ہے تو وہ دوڑتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اللہ کی قسم کھا کر کہنے لگا: ’’میں نے یہ بات نہیں کہی، نہ میں نے یہ الفاظ منہ سے نکالے ہیں۔‘‘ عبداللہ بن ابی اپنی قوم میں عزت و شرف اور بڑے رتبے والا شخص تھا۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم نے عبداللہ بن ابی پر شفقت اور اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! شاید اس لڑکے کو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے اور وہ عبداللہ بن ابی کی بات ٹھیک طرح نہیں سن پایا۔‘‘ ابن اسحاق نے روایت کیا ہے: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ فرمایا اور چلنا شروع کر دیا تو راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ ملے، انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، پھر عرض کیا: ’’اے اللہ کے نبی! اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی ناپسندیدہ گھڑی میں کوچ فرمایا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً کوچ نہیں فرمایا کرتے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تمھیں اس بات کی خبر نہیں پہنچی جو تمھارے ساتھی نے ہمارے بارے میں کہی ہے؟‘‘ انھوں نے پوچھا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کس نے؟ ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’عبداللہ بن ابی نے۔‘‘ اسید نے پوچھا: ’’اس نے کیا کہا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کا خیال ہے کہ وہ معزز لوگ ہیں، اگر وہ مدینہ پہنچ گئے تو عزت والے لوگ ذلیل لوگوں کو وہاں سے نکال دیں گے۔‘‘
Flag Counter