Maktaba Wahhabi

20 - 243
ایک دفعہ بعثت نبوی سے پہلے زور دار طوفان اور سیلاب آیا، یہ اتنا بڑا اور خوفناک سیلاب تھا کہ ہر چیز کو تہس نہس کر رہا تھا۔ یہ سیلاب ’’جرف‘‘ کے علاقے سے آیا اور بیت اللہ تک پہنچ گیا حتی کہ بیت اللہ کے ایک طرف دراڑ پیدا ہو گئی۔ سردارانِ قریش بڑے پریشان تھے، وہ ڈر رہے تھے کہ کہیں بیت اللہ گِر نہ جائے۔ تا ہم دوسری طرف ان لوگوں کو جن کے دلوں میں بیماری تھی، موقع مل گیا اور انھوں نے ہاتھ کی صفائی دکھاتے ہوئے بیت اللہ میں موجود زیورات اور ایک ہرن کا مجسمہ، جو خالص سونے کا بنا ہوا اور ہیرے جواہرات سے جڑا ہوا تھا، اٹھا لیا۔[1] قریش ہنگامی طور پر دارالندوہ اکٹھے ہوئے۔ ولید بن مغیرہ سب سے پیش پیش تھا۔ ان تمام ارکان نے یہ فیصلہ کیا کہ بیت اللہ کو شہید کر کے نئے سرے سے تعمیر کیا جائے اور اس مقصد کے لیے بڑے بڑے ماہرین تعمیر کی خدمات حاصل کی جائیں۔ ابھی وہ پابۂ رکاب ہی تھے کہ انھوں نے یہ خبر سنی کہ سمندر میں ایک کشتی کو طوفان نے آ لیا ہے اور اسے ’’شعبیہ‘‘ کی طرف دے مارا ہے، یہ جدہ کی طرف بندر گاہ ہے۔ اس طوفان نے کشی کو توڑ پھوڑ دیا۔ اس بیڑے پر مغربی روم کے لوگ سوار تھے، انھی میں ایک شخص تھا جس کا نام ’’ باقوم‘‘ تھا۔ یہ بڑا ماہر عمارت ساز تھا۔ ولید بن مغیرہ قریش کے چند افراد کو لے کر شعبیہ گیا اور ان سے اس بحری بیڑے کی لکڑی خرید لی۔ انھوں نے باقوم نامی رومی سے خانہ کعبہ کی تعمیر کے سلسلے میں بات کی حتی کہ رومی اس کام کے لیے تیار ہو گیا۔[2] قریش نے بیت اللہ کو گرانا شروع کر دیا ۔ اس دوران ابو وہب بن عمرو بن عائذ
Flag Counter