Maktaba Wahhabi

116 - 243
کی آواز بہت بھدی اور بلند تھی۔ جب بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان زور سے چیختا تو صدائے باز گشت سے گمان کرتا کہ بتوں کو میری آواز بہت اچھی لگتی ہے اور وہ مجھ سے خوش ہیں۔ یہ اپنا زیادہ وقت بتوں کے پاس ہی بسر کرتا تھا۔ ان مورتیوں کو غور سے دیکھتا، ان سے گرد و غبار اور میل کچیل صاف کرتا۔ ابو لہب ان بتوں سے جدا ہونے کی بالکل طاقت نہیں رکھتا تھا، یعنی دل و جان سے ان پر فریفتہ تھا۔ ابو لہب صبح سویرے مورتیوں کے سامنے آتا، ان کے جسموں پر پیار سے ہاتھ پھیرتا۔ اس کی انگلیاں بتوں کے سخت پتھریلے جسم اور تہہ بہ تہہ مضبوط اعضاء کو چھوتی تھیں اور پھر جب وہ ان مورتیوں کی طرف سے مطمئن ہو جاتا اور یہ سمجھ لیتا کہ یہ مورتیاں اس سے راضی ہیں تو پھر وہ اپنی سواری پر سوار ہو کر وادیوں کی طرف نکل جاتا۔ اپنے تیروں اور نیزوں کے ذریعے جنگلی جانوروں، پھرتیلے ہرن اور پرندوں کا شکار کرتا، پھر واپس آکر شکار گھر پر چھوڑتا اور کعبہ کے صحن میں قریش کے ساتھ گپ شپ اور قصہ گوئی میں مشغول ہونے کے لیے آجاتا تھا۔ جہاں تک اس کی جسمانی بناوٹ کا معاملہ ہے تو اس کا لمبا قد، سفید چمڑی، گھنے بال، بھینگی آنکھیں اور چوڑا سینہ تھا۔ اس میں اڑیل پن اور سختی بہت زیادہ تھی۔ جب وہ غصے کی حالت میں ہوتا تو اس کے دانت کرچ کرچ کرتے تھے اور آنکھیں پھٹنے کے قریب ہو جاتی تھیں۔ ابو لہب کی بیوی ام جمیل ابو سفیان کی بہن تھی، اس کا نام اروی بنت حرب بن اُمیہ تھا۔ وہ اپنے خاوند کے کفر، سرکشی اور حق دشمنی میں اس کا پورا ساتھ دیتی تھی۔ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھی۔ اس نے دین اسلام کی روشنی کو ٹھکرا کر لوگوں کو اسلام سے روکنا اور مسلمانوں سے جھگڑنا شروع کر دیا حتی کہ وہ قرآنی آیات اتریں جن میں خاص طور پر اسے ڈرایا دھمکایا گیا۔ [1]
Flag Counter