Maktaba Wahhabi

115 - 243
اس کی کنیت کی نسبت اس کا نام لے کر پکارنا زیادہ تعظیم کا مظہر ہے جبکہ ابو لہب کسی تعظیم کا مستحق نہ تھا، اس لیے اسے کنیت سے پکارا گیا۔ اس معاملے پر ایک اور انداز سے نظر ڈالیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کو ان کے نام لے کر مخاطب فرمایا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ انبیاء اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے اور رسول ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا اعزاز بڑھایا اور ان کا نام لے کر انھیں مخاطب کیا۔ 4۔اللہ تعالیٰ کا ارادہ عالی یہ تھا کہ اس بد بخت شخص کی نسبت شعلے اور انگارے ہی کی طرف رہے، چنانچہ ابو لہب اپنی کنیت ہی کی مناسبت سے جہنم کی غذا بن گیا۔ ابو لہب سردار عبدالمطلب کا بیٹا تھا۔ جب عبدالمطلب زمزم کا کنواں کھودنے چلے تو قریش نے ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالی اور کہا کہ ہمیں بھی اس میں شریک کرو۔ اس موقع پر عبدالمطلب نے دعا کی کہ اے اللہ! مجھے دس بیٹے عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انھیں دس بیٹے عطا فرمائے۔ عبدالمطلب کے ان دس بیٹوں میں سے ایک بیٹا ابو لہب بھی تھا۔ ابو لہب کی ماں کا نام لُبٰی یا لُبنٰی بنت ہاجر تھا۔ کتب تاریخ میں اس کے مزید حالات نہیں ملتے۔[1] ابولہب کی پرورش مکہ میں ہوئی تھی، اسی لیے وہ مکہ کے تمام گلی کوچوں سے واقف تھا۔ جب وہ جوان ہوا تو اپنے والد کے ساتھ حاجیوں اور زائرین کعبہ کے استقبال میں شریک رہا۔ یہ نہایت سخت دل، خشک مزاج اور جلد غصہ کرنے والا انسان تھا۔ اس میں ہمدردی اور شفقت کا نام و نشان بھی تھا، نہ اس میں کبھی بھلائی کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ اس
Flag Counter