Maktaba Wahhabi

103 - 243
اصل مالک اور سردار ہو، کیا تم اپنے باپ دادا کے دین سے بے وفائی کرو گے؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سے فرمایا: ((لَا أَزَالُ أَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّي حَتّٰی یَرُدَّنِي)) ’’جب تک میرا رب مجھے منع نہ کر دے میں آپ کے لیے اپنے رب سے بخشش طلب کرتا رہوں گا۔‘‘ ابوطالب کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ عرصہ تک اُن کے لیے استغفار کرتے رہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ دیکھا تو کہنے لگے: جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے لیے استغفار کیا ہے اور اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچا کے لیے استغفار کررہے ہیں تو پھر ہم بھی اپنے آباء و اجداد اور رشتہ داروں کے لیے استغفار کیوں نہیں کرسکتے؟ چنانچہ انھوں نے بھی اپنے مشرک رشتہ داروں کے لیے استغفار کرنا شروع کر دیا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے آیات نازل فرمائیں: ﴿ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ، وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ للّٰهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ﴾ ’’نبی اور ایمان والوں کے لیے لائق نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی ہوں، ان کے متعلق یہ بات واضح ہو جانے کے بعد کہ وہ بلاشبہ دوزخی ہیں۔ اور ابراہیم علیہ السلام کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کرنا بس ایک وعدے کے باعث تھا جو وعدہ انھوں نے اس
Flag Counter