Maktaba Wahhabi

182 - 222
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے رسول! آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن تن سے جدا کردوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((دَعْہُ، فَإِنَّ لَہٗ أَصْحَابًا یَّحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَہٗ مَعَ صَلَاتِہِمْ، وَ صِیَامَہٗ مََعَ صِیَامِہِمْ، یَقْرَؤُونَ الْقُرْاٰنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ)) ’’دفعہ کرو! اس کے تو ایسے ایسے ساتھی ہوں گے کہ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر اور ان کے روزے کے مقابلے میں اپنے روزے کو کم تر سمجھو گے۔ یہ لوگ دین سے ایسے خارج ہوجائیں گے جیسے شکار سے تیر صاف نکل جاتا ہے۔ [1] اس بدبخت آدمی کی نسل امت اسلامیہ میں ہمیشہ پلتی بڑھتی رہی ہے۔ یہ لوگ بہت سخت دل اور بے مروت ہوتے ہیں۔ قرآن پڑھتے ہیں مگر وہ ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترتا۔ امت اسلامیہ کو آج ایک نئے علی بن ابی طالب کی ضرورت ہے جو پندرھویں صدی کے خارجیوں کو سبق سکھائے اور امت مسلمہ کو ان سے پاک کرے جیسا کہ پہلی صدی ہجری میں شہسواروں کے شہسوار علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان کا صفایا کردیا تھا۔ ہمیں آج ایسے بہادر آدمی کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے بہادر شہسوار کا شدید انتظار رہے گا۔ اللہ ہی سیدھے راستے کی راہنمائی کرتا ہے۔
Flag Counter