Maktaba Wahhabi

179 - 222
’’یہ (وہ شروط ہیں) جن پر محمد بن عبد اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم)اور سہیل بن عمرو کے مابین صلح طے پائی ہے۔‘‘ خارجیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ایک یہ اعتراض جڑا کہ آپ نے دونوں منصفین سے یہ کیوں کہا کہ اگر میں خلافت کا اہل ہوا تو مجھے برقرار رکھو کیونکہ اگر آپ کو خود اپنی خلافت میں شک ہے تو دوسروں کو اس کے بارے میں بالاولیٰ شک ہوگا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس سے میرا مقصد صرف معاویہ رضی اللہ عنہ سے انصاف کرانا تھا۔ اگر میں منصفین سے کہتا کہ خلافت کا فیصلہ میرے حق میں کرنا تو معاویہ رضی اللہ عنہ اس پر کبھی راضی نہ ہوتے۔ اس کی دلیل بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ملتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نجران سے عیسائیوں کا وفد آیا۔ جب وہ دعوت اسلام قبول نہیں کررہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مباہلے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا تھا: ﴿ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ﴾ ’’ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں، اپنی عورتوں اور تمھاری عورتوں اور اپنے آپ کو اور تم کو بلاتے ہیں، پھر ہم مل کر گڑ گڑا تے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت (کی بددعا) کرتے ہیں۔‘‘ [1] اس طریقے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کو میدان میں اپنے برابر لا کھڑا کیا تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے: میں اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر تم پر اللہ کی لعنت کی بد دعا کرتا ہوں تو اس سے عیسائی بالکل راضی نہ ہوتے۔ میں نے بھی اسی لیے معاویہ رضی اللہ عنہ
Flag Counter