Maktaba Wahhabi

178 - 222
ہاتھ لگا، وہ ہمارے لیے جائز قرار دے دیا تھا لیکن ان کی عورتوں اوربچوں کو قیدی بنانے سے روک دیا تھا۔ آپ نے ان کا مال کس دلیل کی بنا پر حلال سمجھا اور عورتوں اور بچوں کو کیوں حلال نہ سمجھا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں نے ان کے اموال صرف اس چیز کے بدلے میں حلال کیے تھے جو انھوں نے میرے آنے سے پہلے بصرہ کے بیت المال سے لوٹ مار کی تھی۔ عورتوں اور بچوں نے ہمارے خلاف جنگ نہیں کی تھی، اس لیے ان کے حق میں اسلام کا یہی حکم ہے کہ انھیں دارالاسلام کے حکم میں رکھا جائے، انھیں غلام نہ بنایا جائے۔ ان سب امور کے باوجود اگر میں تمھیں اجازت دے دوں کہ تم عورتوں کو لونڈیاں بنالو تو بتاؤ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کون لونڈی بناتا؟ خارجیوں سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو شرمندگی سے ان کے سر جھک گئے۔ مگر ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنے لگے: ہم آپ سے اس بات کا بھی انتقام لیتے ہیں کہ آپ نے معاویہ( رضی اللہ عنہ)کے ساتھ معاہدے کی تحریر میں جب انھوں نے آپ کے نام کے ساتھ: إِمْرَۃِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ (امیر المومنین علی کی امارت میں) لکھنے پر جھگڑا کیا تو آپ نے یہ لقب کیوں مٹادیا؟ علی رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا: میں نے یہ بعینہ اسی طرح کیا ہے جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا جب سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا: اگر میں آپ کو رسول مانتا ہوتا تو آپ سے جھگڑا نہ کرتا، البتہ آپ اپنے اور اپنے والد کے نام سے صلح نامہ لکھیں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا تھا: ((ہٰذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ وَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو))
Flag Counter