Maktaba Wahhabi

162 - 222
دور کی کوئی خبر نہیں، البتہ اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنے علاقے کے رئیس تھے اور ان کا حکم مانا جاتا تھا۔ جب انھیں اسلام کی دعوت پہنچی اور پتا چلا کہ لوگ جوق درجوق دین اسلام میں داخل ہورہے ہیں تو وہ کندہ سے اَسّی (80) افراد کا وفد لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ آگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات مسجد میں ہوئی۔ وفد کے تمام ارکان نے کنگھی کی ہوئی تھی اور سرمہ لگایا ہوا تھا۔ انھوں نے حبرہ (یمنی چادریں) اوڑھ رکھی تھیں جن کے کناروں پر ریشم لگا ہواتھا۔ جب وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’اَلَمْ تُسْلِمُوا؟‘ ’’کیا تم نے اسلام قبول نہیں کیا؟‘‘ وہ کہنے لگے: کیوں نہیں! اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا:((فَمَا بَالُ ہٰذَا الْحَرِیرِ فِي أَعْنَاقِکُمْ؟)) ’’پھر تمھارے گلوں میں یہ ریشم کیسا ہے؟‘‘ [1] انھوں نے اپنے گلوں سے ریشم پھاڑ کر پھینک دیا۔ اشعث رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول!ہم آکل المرار(سختیوں کو برداشت کرنے والے) کی آل ہیں اور آپ بھی آکل المرار کے بیٹے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبسم فرماتے ہوئے کہنے لگے: ((نَاسَبُوا بِہٰذَا النَّسَبِ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِالْمُطَّلِبِ وَرَبِیعَۃَ بْنَ الْحٰرِثِ)) ’’(’’اٰکِلُ المِرَارِ‘‘ کی آل کا جملہ بول کر) انھوں نے عباس بن عبد المطلب اور ربیعہ بن حارث کو اپنا ہم نسب قرار دیا ہے۔‘‘ اس کا پس منظر یہ ہے کہ عباس اور ربیعہ تجارت کے لیے جایا کرتے تھے۔ جب وہ عرب کے کسی دوسرے علاقے میں جاتے اور ان سے پوچھا جاتا کہ تم کون ہو؟ تو وہ
Flag Counter