Maktaba Wahhabi

58 - 108
اور آخرت کی تیاری کے لیے کچھ کرنے کی تڑپ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ بری صحبت اور غلط کار لوگوں کے ساتھ کی وجہ سے ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: [وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْهِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا 27؀ يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا 28؀ لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِيْ ][1] (اس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا۔ اور کہے گا اے کاش! میں نے رسول کا راستہ اپنایا ہوتا۔ ہائے افسوس۔ کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے تو میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے بہکا دیا۔) قیامت والے دن ایسی دوستیوں کا انجام سوائے حسرت اور افسوس کے کچھ نہ ہوگا۔ اسی لیے نیک اور اہلِ تقویٰ لوگوں سے دوستی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: «لاتُصَاحِبْ اِلاَّ مُؤمِنًا وَلَا یَاکُلُ طَعَامَكَ اِلاَّ تَقِیٌّ»[2] (صرف مومن کی صحبت اختیار کرو اور نیک لوگ ہی تمہارے دستر خوان پر کھانا کھائیں۔) اس کے برعکس کافر ‘منافق اور فاجر لوگوں کی محفل سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتدا میں انسان شرکیہ عقائد اور گندی باتوں سے نفرت کرتا ہے۔ لیکن غلط محفلوں میں بیٹھنے سے آہستہ آہستہ اس کا مزاج ان باتوں کا عادی ہو جاتا ہے۔ چنانچہ پہلے تو نفرت ختم ہو تی ہے پھر وہ خود بھی ان باتوں میں دلچسپی لینا شروع کر دیتا ہے۔ پھر ایک وقت ایساآتا ہے جب انسان کا دل پوری طرح سیاہ ہو جاتا ہے۔ اس وقت انسان کا دل اس کی سوچ اور فکر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ پھر وہ جو بھی بات سوچے گا غلط اور معصیت کی بات سوچے گا۔ ارشادِ ربانی ہے: [وَمَنْ يَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ][3] انجام کار اس کا دل گناہ کے کاموں کو معمولی سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی اور بری محفل اور اس کے نتائج کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا ہے:
Flag Counter