Maktaba Wahhabi

49 - 108
تھے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا میری بھلائی کی فکر میں تھیں اور میری مدد کرنا چاہتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہا۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کعب بن مالک کی توبہ قبول ہو گئی۔ انہوں نے کہا میں کعب کو مبارک باد کہلا بھیجوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ ہجوم کر آئیں گے اور تمہاری نیند خراب کر دیں گے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی تو لوگوں کو ہماری توبہ قبول ہونے کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی اچھی خبر ملتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ یوں چمکنے لگتا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو۔ ہم تین آدمیوں کے لیے جن کا معاملہ التوا میں ڈال دیا گیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے معافی کا حکم اتارا۔ باقی جن لوگوں نے بہانے تراشے ان کا ذکر بری طرح کیا گیا[1]۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول ہونے کے بارے ارشاد فرمایا: ﴿وَّعَلَي الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا ۭ حَتّٰى اِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ اَنْفُسُھُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّآ اِلَيْهِ ۭ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوْبُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ١١٨؀ۧ﴾[2] (اور ان تین آدمیوں پر بھی (مہربانی کی) جن کا معاملہ ملتوی رکھا گیا تھا حتی کہ زمین اپنی فراخی کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی اور ان کی اپنی جانیں بھی تنگ ہو گئیں اور انہیں یہ یقین تھا کہ اللہ کے سوا ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔ پھر اللہ نے ان پر مہربانی کی تاکہ وہ توبہ کریں۔ اللہ تعالیٰ یقینا توبہ قبول کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔) سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہا کرتے۔ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اللہ نے کسی کو سچ کہنے کی توفیق دے کر اس پر اتنا احسان کیا ہو جیسا کہ مجھ پر کیا۔ میں نے ا س وقت سے لے کر آج تک قصداً جھوٹ نہیں بولا اور اللہ تعالیٰ نے اسی بارے یہ آیات نازل کیں۔﴿ لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَي النَّبِيِّ..... وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ ١١٩؁﴾[3]
Flag Counter