Maktaba Wahhabi

48 - 108
مجھے بنو سلمہ کے لوگ کہنے لگے تم نے کیوں نہ کوئی عذرکر دیا جیسا دوسرے لوگوں نے کیا۔ تمہارے گناہ کی معافی کے لیے یہی کافی تھا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری مغفرت کے لیے دعا کر دیتے۔ وہ مجھے اس بارے ملامت کرتے رہے کہ مجھے خیال آیا کہ میں دوبارہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں اور پہلی بات کی تکذیب کردوں لیکن پھر میں نے ان سے پوچھا کہ میرے والا معاملہ کسی اور کے ساتھ بھی پیش آیا ہے۔ا نہوں نے کہا ہاں مزید دو آدمیوں کا یہی معاملہ ہے۔ میں نے پوچھا وہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ ۔ یہ دونوں آدمی بہت نیک تھے اور بدری صحابی تھے۔ ان میں میرے لیے نمونہ تھا۔ جس وقت انہوں نے ان دو آدمیوں کا ذکر کیا تو میں اپنے سابقہ موقف پر جم گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ کو مجھ سے اور میرے جیسے دو ساتھیوں سے بات چیت کرنے سے منع کر دیا۔ ہم تین آدمیوں کے علاوہ جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے ان کے بارے یہ حکم نہ دیا۔ اب صحابہ کرامؓ نے ہم سے بات چیت چھوڑ دی۔ اس حال میں زندگی مجھ پر دو بھر ہوگئی۔ مجھے بڑی فکر یہ تھی کہ اگر میں اسی حالت میں مر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے جنازے پر نماز بھی نہ پڑھیں گے۔ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو جائے تو میں ساری عمر اسی مصیبت میں مبتلا رہوں گا۔ کہ مجھ سے کوئی بات چیت بھی نہ کرے گا۔ جب چالیس دن اسی حالت میں گزر گئے تو ہم تینوں کو حکم ہوا کہ ہم اپنی بیویوں سے بھی الگ رہیں۔ میں نے پوچھا طلاق دے دوں؟ جواب ملا۔ نہیں بس الگ رہو۔ ہلال بن امیہ کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور کہنے لگی۔ بلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نہایت کمزور ہے۔ وہ اکیلا نہیں رہ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے خاوند کے پاس رہنے کی اجازت دے دی۔ مگر صحبت کی اجازت نہ دی۔ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ۔ انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس معاملہ کا فیصلہ کر دے۔ آخر (پچاس دن گزرنے کے بعد) اللہ تعالیٰ نے ہماری معافی کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا۔ اس وقت تہائی رات باقی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں
Flag Counter