ہے بلکہ علم وتفقہ حکمت مصالح کا یہ ترجمان دل ہی دل میں محسوس کر رہا تھا کہ جب مذاہب مجتہدین اسلام کی ترجمانی ہے اور ائمہ کی فقہ کا ماخذ قرآن اور سنت تو بعض تعبیرات کو کلیۃً کیوں ترک کیا جائے اور بعض پر قناعت کیوں کی جائے اگر کسی موسم اور کسی ملک میں ایک تعبیر اسلامی مصالح اور دینی مقاصد کے چوکھٹے میں پوری طرح سازگار آسکے تو بالکل ممکن ہے کہ دوسری تعبیر دوسرے ماحول میں اس سے بھی زیادہ سازگار آئے۔ نبوت جب ختم ہوچکی ہے تو صرف ترجمانی اور تعبیر کو کیوں نبوت کی طرح دائمی اور دوامی حیثیت دی جائے۔ امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ دین کے خادم ہیں اور اسلام کے ترجمان۔ دین ان کا دست نگر اور خادم نہیں کہ ان کے ارشادات اور احکام کے لئے ہر وقت چشم براہ رہے۔ فقہاء کی عرصہ سے یہ حالت تھی وہ اس رسمی اور فقہی تقلید کو واجب اور فرض سمجھتے تھے اس کی مزعومہ حیثیت کی بناء پر انکار وتکفیر اور ایک دوسرے کی اقتداء سے حتمی طور پر روکا جاتا تھا۔ یہ سوتیلی ماں کا سا معاملہ ایک دانشمند کے لئے موجب حیرت تھا۔ شافعی حنفی ہو تو سزا پائے اور حنفی شافعی ہو خلعت ملے۔ یہ کیسی حق پروری ہے؟ یہ عجیب وطیرہ تھا کہ علماء کے اقوال اور ارشادات، اور نصوص کتاب وسنت میں جب اختلاف ہو تعارض ہو ہو تو تاویل اور توڑ پھوڑ نصوص کا حصہ تھا اور اپنی جگہ پر قائم رہنا ائمہ کی فقہیات کا حق تھا اور پھر دعویٰ یہ کہ اصل مطاع نبوت ہے اجتہاد نہیں۔ یہ دو عملی اور تضاد حضرت شاہ صاحب ایسے دور اندیش معاملہ فہم فقیہ کے لئے کیسے اطمینان کا موجب ہو سکتا تھا؟ اس لئے ظاہر ہے کہ جمود پیشہ اور قاصر النظر دنیا کی سیرابی اور اطمینان کے اسباب دواعی ایک بالغ النظر اور تجدیدی ذہن کے لئے کبھی اطمینان کا موجب نہیں ہو سکتے تھے اس لئے شاہ صاحب کی تشنگی فطری اور قدرتی تھی۔ پھر جمود اور استعداد اجتہاد کا فقدان فقہائے احناف سے مخصوص نہ تھا بلکہ تقلید کے مزاج کا تقاضا تھا کہ وسعت نظر اور دقت فکر سے ممکن طور پر اجتناب کیا جائے۔ دلائل کی چھان پھٹک کے مشغلہ سے بچ کر رجال اور ان کے اقوال کے سہارے پر زندہ رہنے کی کوشش کی جائے۔ جس طبیعت کا خمیر تجدید اور اجتہاد سے اٹھایا گیا ہو جہاں حکم اور مصالح ذوق میں سمو دئیے گئے |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |