Maktaba Wahhabi

68 - 197
یہی بات ذرا ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ کسی کی والدہ، بہن، بیٹی یا بیوی یا کوئی اور رشتہ دار باورچی خانے میں ہو۔ یکایک باورچی خانے میں آگ بھڑک اٹھے، کیا اپنے عزیز اور قریبی شخص سے صلہ رحمی کرنے والا برداشت کرے گا، کہ باورچی خانے میں موجود اس کا کوئی قرابت دار بھڑکتی ہوئی آگ میں جل کر راکھ ہوجائے اور وہ خاموشی سے تماشا دیکھتا رہے؟ اگر صلہ رحمی کرنے والا اپنے رشتے دار کو دنیا کی آگ سے بچانے کے لیے پوری جدوجہد کرنا ضروری سمجھتا ہے، تو وہ کس طرح اپنے عزیز کو جہنم کی آگ سے بچانے میں غفلت اور چشم پوشی کرسکتا ہے؟ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے، کہ نافرمان اور بُرے رشتہ داروں کو نیکی کی راہ پر لانے اور بدی کی راہ سے بچانے کے لیے، اگر ان سے بائیکاٹ ضروری ہو، تو اُن کا بائیکاٹ یعنی اُن سے قطع تعلقی کرنا ہی صلہ رحمی ہے اور اس حالت میں اُن سے دوستی اور محبت کا تعلق رکھنا قطع رحمی ہے۔ امام ابن ابی جمرہ رقم طراز ہیں: ’’اگر (رشتہ دار) کافر یا نافرمان ہوں، تو اللہ تعالیٰ کی خاطر اُن سے قطع تعلق کرنا ہی صلہ رحمی ہے، البتہ یہ قدم اٹھانے سے پہلے انہیں سمجھانے کی بھرپور کوشش کرے اور ان پر وعظ و نصیحت کے بے اثر ہونے کی صورت میں انہیں آگاہ کردے، کہ نافرمانی پر اُن کے اصرار کی وجہ سے وہ قطع تعلق کر رہا ہے اور پھر قطع تعلقی کی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ سے التجا کرتا رہے، کہ وہ انہیں راہِ حق کی طرف پلٹا دیں۔‘‘[1] 
Flag Counter