Maktaba Wahhabi

195 - 197
اس کی وجہ سے ربِّ کریم سینوں کی غموں سے آزادی، گم راہی کی تنگی کی بجائے رشد و ہدایت کی وسعت اور فقر کی جگہ تونگری عطا فرماتے ہیں۔ اس حصے میں رزق کی تئیس کنجیوں کے متعلق ذکر کردہ گفتگو کا خلاصہ درجِ ذیل ہے: ۱: آخرت کو اپنا مطمۂ نظر بنانا: اس سے مراد معیشت کے لیے جدوجہد کا چھوڑنا نہیں، بلکہ معنٰی یہ ہے، کہ مقصودِ اصلی آخرت کا بنانا اور سدھارنا ہو۔ دنیا بنانے کے چکر میں آخرت کو داؤ پر نہ لگایا جائے۔ آخرت کو ہدف بنانے سے اللہ تعالیٰ دل میں تونگری ڈال دیتے ہیں، بکھرے ہوئے معاملات کی شیرازہ بندی فرما دیتے ہیں۔ دنیا حقیر ہو کر ایسے شخص کے پاس آتی ہے۔ فقر و افلاس کو اس کی پیشانی سے دور کر دیا جاتا ہے اور وہ غِنٰی اور تونگری کی حالت میں صبح اور اسی حالت میں شام کرتا ہے۔ اس کا ذریعہ معاش اُسے کفایت کرتا ہے۔ ۲: اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل : ایسا کرنے سے ہر جانب سے وسعت اور کشادگی میسّر آتی ہے۔ آسمان سے موسلادھار بارانِ رحمت اور زمین سے غلّے، نباتات، پھل اور دیگر نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ۳: احسان: اس سے مراد زندگی کے تمام شعبوں میں احکامِ الٰہیہ کی تعمیل کرنا ہے اور ایسا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ آخرت سے پہلے، دنیا ہی میں (کشادہ رزق، پُر لطف زندگی، اطمینانِ قلب، امن اور شادمانی پر مشتمل (حَسَنَۃٌ) عطا فرماتے ہیں۔
Flag Counter