Maktaba Wahhabi

18 - 71
کتب سابقہ بھی اس کے بیان سے خاموش ہیں،البتہ قرآن کریم میں’’روح‘‘ کا لفظ متعدد مقام پر آیا ہے،اور اپنے سیاق سباق کے لحاظ سے معنوی فرق رکھتا ہے،مثلاً کسی آیت میں روح سے مراد جبرئیل،کسی میں قرآن یا وحی ہے،اور وہ روح جو انسان و حیوان میں ہوتی ہے،اس کے متعلق قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس کی حقیقت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے،انسان کو اس کے علم و فہم کی اہلیت وقدرت حاصل نہیں ہے،چنانچہ ایک مرتبہ یہود نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا امتحان لینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی حقیقت کے بارے میں سوال کیا،تو یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ وَمَا أُوتِیْتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِیْلاً﴾ [1] ’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ روح کیا ہے؟ کہدیں کہ میرے پروردگار کا حکم ہے،اور تمہیں علم تھوڑا سا دیا گیا ہے۔‘‘ یعنی روح ایک لطیف شے ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم و ارادے سے بدن میں داخل ہوتی ہے تو وہ جی اٹھتا ہے،اور جب نکل گئی تو وہ مر گیا۔‘‘ بس اس کے علاوہ روح کی حقیقت اللہ ہی کو معلوم ہے،تمھیں جو علم دیا گیا ہے وہ اتنا تھوڑا ہے کہ روح کو جاننے اور سمجھنے کی اہلیت و صلاحیت نہیں رکھتا۔ شارح بخاری امام قسطلانی نے ﴿الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّی﴾ کی تفسیر بایں الفاظ بیان کی ہے:’’أي من الابداعیات الکائنۃ بکن من غیر مادۃ و تولید من أصل‘‘[2] یعنی روح ایک نو ایجاد شے ہے جو بغیر مادہ اور اصل کے اللہ کے کلمہء ’’کن‘‘ سے پیدا اوروجود پذیر ہوتی ہے،معلوم وا کہ روح کوئی مادی و جسمی چیز نہیں ہے،بلکہ ایک
Flag Counter